1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان کے بحران پر بش بلیر ملاقات

28 جولائی 2006

ٹونی بلیر کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کی حمایت کرنے ، حزب اللہ کو موجودہ جنگ کا ذمہ دار قراردینے اور لبنان میں فوری جنگ بندی کی درخواست کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کابینہ کے اراکین کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYKd
تصویر: AP

ایک طرف تو لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے تو دوسری طرف امریکی اور برطانویرہنماﺅں نے لبنان کے بحران پر گفتگو کی ہے ۔ ٹونی بلیر کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کی حمایت کرنے، حزب اللہ کو موجودہ جنگ کا ذمہ دار قراردینے اور لبنان میں فوری جنگ بندی کی درخواست کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کابینہ کے اراکین کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔

ٹونی بلیر ایسے وقت میں واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں جب ایک طرف تو امریکہ اور برطانیہ پر لبنان میں فوری طور پر جنگ بند کرانے کے لئے شدید دباﺅ ہے دوسری طرف برطانوی کابینہ نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو لیزر بم فراہم کرنے کے لئے ان کے ائر پورٹوں کو استعمال کیا ہے۔

برطانوی سرکاری ذرائع کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹونی بلیر بھی لبنان میں فوری جنگ بندی کی کوئی تجویز لے کر نہیں گئے ہیں بلکہ ان کا ایک مقصد لبنان میں جنگ بندی کے لئے عملی اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔ برطانوں وزیر اعظم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیر کو امید ہے کہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متوقع قرارداد، مشرق وسطی کے بحران کو حل کرنے میں مدد دے سکے گی ۔

ادھر لبنان کی صورتحال ہر لمحہ تشویش ناک ہوتی جارہی ہے ۔ امدادی تنظیموں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ جنونی لبنان کے دیہاتوں میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے طبی اور غذائی امداد پہنچانا تقریبا ناممکن ہو چکا ہے۔بلجیم کی طبی امداد ی تنظیم Doctors without Borderکے ایک آپریشنل ڈائریکٹر کرسٹوفر اسٹوکس کا کہنا ہے کہ جنوب کے علاقے میں انسانوں تک رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ایسا ممکن ہے تو بین الاقوامی برادر ی خود کو دھوکا دے رہی ہے۔

لبنانی حکا م کے مطابق 17 روز سے جاری اس جنگ میں اب تک 600 افراد مارے جا چکے ہیں۔اس وقت اسرائیل کے درجنوں جنگی طیارے جنوبی لبنان میں بمباری کر رہے ہیں اور توپوں کے سینکڑوں گولے مسلسل داغے جا رہے ہیں۔ حزب اللہ نے بھی آج پہلی مرتبہ اسرائیل کے اندر تک ایک نئی قسم کا راکٹ فائر کیا ہے۔

بیروت میں عالمی ادارہ خوراک کا بھی کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک بھی امدادی سامان، بیروت سے 83 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے ٹائر شہر تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ انہوں نے کہا ان کے پاس صرف یہی ایک راستہ ہے کہ جنگ میں الجھے ہوئے فریقین کو اس با ت سے آگاہ کر دیا جائے کہ وہ کب اور کہاں امداد پہنچائیں گے۔

اقوام متحدہ کا خیال ہے کہ اس لڑائی اوربمباری کی وجہ سے لبنان میں آٹھ لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔تقریبا چھ سو اسکولوں کو شیلٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، لوگوں کی ایک بڑی تعدا د ایسے بند علاقوں میں رہ رہی ہے جہاں ہیضے سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔