1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں غیر رجسٹر شامی باشندے خوف میں مبتلا

عاطف بلوچ17 اپریل 2016

لبنان میں مقیم بہت سے شامی مہاجرین کا کہنا ہے کہ نئے ضوابط نافذ العمل ہونے کے بعد ان کی زندگی منجمد ہو گئی ہے۔ ان ضوابط کے تحت اب ناممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنے رہائشی اجازت ناموں کی تجدید کروا سکیں۔

https://p.dw.com/p/1IXBN
Symbolbild Libanon Minderjährige Mädchen Flüchtlingslager
تصویر: Getty Images/AFP/M. Naamani

لبنان میں رہائش پذیر نصف شامی مہاجرین کے پاس اس ملک میں رہنے کے لیے جائز اجازت نامے نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس صورت حال میں لبنان میں نئے پیدا ہونے والے شامی بچوں کی رجسٹریشن میں بھی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔

شامی مردوں کو خوف ہے کہ رہائشی پرمٹ نہ ہونے کے باعث انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ وہ کام بھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اپنے شیلٹر ہاؤسز سے زیادہ دور جانے سے کتراتے ہیں۔ یہاں تک کے کامیاب تاجر بھی آزاد نقل و حرکت سے خوفزدہ ہیں۔

چودہ سالہ شامی بچہ حسین اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ وہ اپنے کبنے کی کفالت کرنے والا واحد فرد ہے۔ اس کا گھرانہ بیروت کے شاتیلا مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔

حسین کے انچاس سالہ والد ولید العدل کے رہائشی پرمٹ کی معیاد بھی ختم ہو چکی ہے۔ اس نے اے ایف پی کو بتایا، میں خوف میں مبتلا ہوں۔ جب میں اپنے کیمپ سے باہر جاتا ہوں تو مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ میں واپس بھی آ سکوں گا یا نہیں۔‘‘

العدل روزانہ اپنے ناخواندہ بیٹے حسین کو کمائی کے لیے باہر بھیج دیتا ہے۔ اس کے بقول، ’’حسین کے پکڑے جانے کے امکانات کم ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ میں اپنے گھرانہ کی کفالت کی خاطر اور کیا کروں۔‘‘

شاتیلا مہاجر کیمپ گزشتہ سالوں کے دوران غریب افراد کی رہائش گاہ بن چکا ہے۔ وہاں لبنان کے غریب کبنے بھی سکونت پذیر ہیں۔ اس کیمپ کی نگرانی فلسطینیوں کے سپرد ہے اور وہاں لبنانی سکیورٹی اہلکاروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔

لبنان میں 1.1 ملین شامی مہاجرین اور چار لاکھ پینتالیس ہزار فلسطینی مہاجر آباد ہیں۔ اپنی آبادی کے تناسب سے مہاجرین کو پناہ دینے والا یہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس ملک کی مجموعی آبادی صرف چار ملین ہے۔

لبنان نے یو این ریفیوجی کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں، اس لیے وہ شامیوں کے ساتھ مہاجرین کے بجائے غیر ملکی افراد جیسا سلوک کرتا ہے۔ لبنانی قوانین کے تحت وہاں پناہ حاصل کرنے والوں کو اقوام متحدہ کے توسط سے رہائشی پرمٹ کے لیے درخواست جمع کرانا ہوتی ہے۔ اس پرمٹ میں یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ وہ کام نہیں کر سکتے۔

Lebanon Shatlia Flüchtlingscamp Beirut
بیروت کے نواح میں واقع شاتیلا مہاجر کیمپ کی حالت انتہائی ابتر ہےتصویر: DW/M. Nashed

لبنان میں ان افراد کو ہر سال اپنے پرمٹ کی تجدید کرانا ہوتی ہے، جس کی فیس دو سو امریکی ڈالر ہے۔ دیگر افراد کی طرح شامیوں کو بھی اس پرمٹ کے حصول کے لیے اپنا پتہ اور مکمل کوائف بتانے ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان میتھیوسالٹ مارش کے مطابق فیس اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے شامی باشندے لبنان میں قانونی رہائشی پرمٹ حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مارچ سن 2016 تک کے اعدادوشمار کے مطابق لبنان میں مقیم چھپن فیصد شامی مہاجرین نے خود کو رجسٹر نہیں کروایا ہے۔

دوسری طرف لبنانی حکام نے مہاجرین کے حوالے سے اپنے مروجہ قوانین پر تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ اس نے ان افراد کو لبنان میں مناسب رہائش فراہم کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جبکہ انسانی بحران کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے رہائشی پرمٹ جاری کرنے کا عمل بھی آسان بنا دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں