1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان ایک نئے سیاسی بحران کی لپیٹ میں

12 دسمبر 2007

لبنان کے دارالحکومت بیروت کے قریب عیسائی آبادی والے علاقے ’بعبدا‘ میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں فوج کا ممکنہ سربراہ جنرل فرانسوئس الحاج سمیت 5، افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYFy
تصویر: AP

لبنان کی فوج پر ہونے والا اس نوعیت کا یہ پہلا حملہ ہے۔ لبنان میں 1975سے 1990تک کی خانہ جنگی کے بعد سے فوج، لبنان کے تمام تر سیاسی بحران کے باوجود متحدہ شکل میں باقی رہی ہے۔ہلاک ہونے والے بریگیڈیر جنرل فرانسوئس الحاج کو کہ جو فوج کے آپریشنل شعبے کے چیف تھے، شمالی لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ میں گزشتہ موسم گرما میں القاعدہ کے حامی اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ پندرہ ہفتے کی جنگ میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ لبنان کے سابق وزیر داخلہ بشرہ میرحاج Bashera Merhajکا کہنا ہے کہ

’ یہ دھماکہ لبنانی حکومت ، لبنانی معاشرے اور لبنانی فوج پر ایک سخت حملہ ہے۔کیونکہ ہلاک ہونے والے جنرل دہشت گرد گروپوں کے مخالف تھے، وہ جنوب کے علاقے میں ایک ممتاز افسر سمجھے جاتے تھے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ ‘

یہ کار بم دھماکہ اس وقت ہوا جب جنرل الحاج اور ان کے محافظوں کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ جنرل میشائل سلیمان کے جانشین کے طور پر ان کا نام لیا جا رہا تھا۔یہ واقعہ ایسے وقت میں رونما ہوا ہے جب لبنان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی ایک صدارتی امیدوار پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ایک نیابحران شروع ہو چکا ہے۔

عام طور سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ صدر کو پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے متفقہ فیصلے سے منتخب کیا جائے گا۔ لبنان کے سیاسی نظام میں صدر کو عیسائیوں خاص طور پرمارونی عیسائیوں میں سے 6برس کی مدت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ وزیر اعظم اہل سنت میں سے اور اسپیکر شیعوں میں سے منتخب کیا جاتا ہے۔لبنان کے سابق صدر امیل لحود کو شام کا حامی سمجھا جاتا تھا اور 23، نومبر کو ان کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد ابھی تک کوئی نیا صدر منتخب نہیں ہو سکا ہے۔ پارلیمنٹ میں شام کی حامی اور مخالف جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کی وجہ سے لبنان ایک بار پھر ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار نظر آرہا ہے۔ تاہم کہا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم فواد سینورا اور شام کی حامی حزب اللہ کے درمیان فوج کے سربراہ جنرل مشائل سلیمان پر کسی حد تک اتفاق ہو گیا تھا۔

بہت سے ملکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے کا تعلق ملک میں جاری صدارتی بحران سے ہے اور ہو سکتا ہے القاعدہ کے حامی گروپ سے ان کی چند ہفتے کی لڑائی سے بھی اس کا تعلق ہو۔بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آج کا بم دھماکہ فوج کے لئے بھی ایک پیغام ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اس کو ملک میں جاری سیاسی بحران میں مداخلت نہیں کرناچاہیے۔