1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لانگ مارچ: سفارتی کوششیں اور رحمان ملک کی تنبیہہ

شکور رحیم، اسلام آباد10 مارچ 2009

معزول ججوں کی بحالی اور پاکستان میں قانون کی بالادستی کے لئے وکلاء کے لانگ مارچ کے آغازسے تین روز قبل مشیرداخلہ رحمان ملک نے سخت لہجےمیں واضح کر دیا کہ مارچ کے شرکاء کو پارلیمان کے سامنے دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/H8qo
"بغاوت پر اکسانے کا نتیجہ، قانون کے مطابق کارروائی"تصویر: Abdul Sabooh

پیر کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی کے داخلہ امور کے مشیر نے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) اور خاص کر اس کی اعلیٰ قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ نواز شریف عوام کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں اور ان کے بقول قانون کے مطابق اس جر م کی سزا عمر قید اور جرمانہ ہے۔

مشیر داخلہ نے شریف برادران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ لانگ مارچ کی آڑمیں حکومتی عملداری چیلنج کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا اور اس دوران کسی بھی جانی یا مالی نقصان کا مقدمہ بغاوت کا علم بلند کرنے والوں کے خلاف درج کیا جائے گا۔

اسی دوران پاکستان میں سیاسی کشیدگی کو اس کے عروج پر دیکھتے ہوئے غیر ملکی سفارتکار بھی اپنی مفاہمتی کوششوں کے ساتھ سرگرم عمل ہو چکے ہیں اور اسی سبب اسلام آباد میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے و زیراعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ(ن)کے صدر میاں شہباز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لئے مفاہمت کی راہ اپنانے پر زور دیا۔

امریکی سفیر کے ساتھ ملاقات کے بعد میاں شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انھوں نے مفاہمت کے لئے اپنی جماعت کے اصولی موقف سے امریکی سفیر کو آگاہ کر دیاہے۔ اس موقع پر شہباز شریف نے مشیر داخلہ رحمان ملک پر پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کے لئے قومی خزانے سے پچاس کروڑ روپے غبن کرنے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ وہ عدلیہ کی بحالی کے لئے حکومت کے دباؤ میں آئے بغیر لانگ مارچ میں بھر پور شرکت کریں گے۔

دوسری طرف پیر اور منگل کی درمیانی شب مقامی ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور بین الصوبائی رابطوں کے وزیر میاں رضا ربانی نے وزیر قا نو ن فاروق ایچ نائک کوسینیٹ کا نیا چیئر مین نامزد کئے جانے کے فیصلے کے خلاف بطور احتجاج اپنے دونو ں عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ مقامی سیاسی تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی کے مستعفی ہونے کے فیصلے کو حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکہ قرار دے رہے ہیں۔