1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قلم بيچنے والا پناہ گزين، آج تين کاروباروں کا مالک

عاصم سليم3 دسمبر 2015

بيروت کی سڑکوں پر قلم فروخت کرتے ہوئے شامی مہاجر عبدالحليم العطار کی تصوير نے چند مہينے قبل سوشل ميڈيا پر تہلکہ مچا ديا تھا۔ انٹرنيٹ پر چندہ جمع کرنے کی ايک مہم کی بدولت آج وہی شخص تين کاروبار چلا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HGHI
تصویر: twitter.com/GissiSim

دو بچوں کے والد تينتيس سالہ العطار نے دو ماہ قبل ايک بيکری کھولی، جس کے بعد اس نے اپنے کاروبار ميں مزيد توسيع کرتے ہوئے کباب کی ايک دکان اور ايک چھوٹا ريستوران بھی کھول ليا۔ العطار کی ان تين دکانوں ميں سولہ ديگر شامی مہاجرين ملازمت کر رہے ہيں۔

اس سال موسم گرما ميں عبدالحليم العطار کی ايک تصور دنيا بھر ميں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ تصوير ميں وہ سخت گرمی ميں اپنی چھوٹی سی بيٹی کو کندھوں پر ليے آس پاس سے گزرنے والی موٹر گاڑيوں والوں کو قلم فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی تصوير نے جہاں لاکھوں کے دل پگھلا ديے، وہيں ناروے کے ايک صحافی اور ويب ڈيولپر گيسور سائمنارسن نے @buy_pens کے عنوان سے ايک ٹوئٹر اکاؤنٹ اور Indiegogo پر العطار کے ليے پانچ ہزار ڈالر جمع کرنے کی ايک مہم شروع کر ڈالی۔ تين ماہ بعد جب يہ مہم اپنی ابتدائی مدت کے خاتمے پر پہنچی، تو جمع ہونی والی رقم 188,685 ڈالر تھی۔ بعد ازاں اب تک اس ميں مزيد 2,324 ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے۔

العطار نے اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے بتايا، ’’نہ صرف اس کی بدولت ميری زندگی تبديل ہوئی بلکہ ميرے بچوں اور شام ميں موجود ان لوگوں کی بھی زندگياں تبديل ہوئيں، جن کی ميں نے مدد کی۔‘‘ العطار کے بقول اس نے پچيس ہزار ڈالر شام ميں اپنے مستحق دوستوں اور رشتہ داروں ميں تقسيم کيے۔

اپنا کاروبار شروع کرنے کے علاوہ العطار نے بيروت ميں ايک کمرے کا گھر چھوڑ کر اب دو کمروں والا مکان لے ليا ہے۔ ان کی چار سالہ بيٹی ريم، بڑے فخر کے ساتھ اپنے نئے کھلونے دکھاتی ہے۔ يہ وہی بچی ہے، جو تصوير ميں اپنے والد کے کندھوں پر نظر آتی ہے۔ ريم کا نو سالہ بھائی تين برس کے وقفے کے بعد اب دوبارہ اسکول جانے لگا ہے۔

پناہ کے ليے يورپ آنے والوں ميں سب سے بڑی تعداد شامی شہريوں کی ہے
پناہ کے ليے يورپ آنے والوں ميں سب سے بڑی تعداد شامی شہريوں کی ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Nimani

عبدالحليم العطار آج شامی دارالحکومت دمشق کے جنوب ميں واقع فلسطينی مہاجر کيمپ يرموک سے بہت دور ہے، جہاں وہ کسی وقت ايک چاکليٹ فيکٹری ميں ملازمت کيا کرتا تھا۔ يہ کيمپ اب اندرونی لڑائی جھگڑوں کی نظر ہو چکا ہے۔ العطار فلسطينی ہے ليکن وہ شام ميں رہا کرتا تھا اور ان دنوں بيروت ميں مقيم ہيں۔ اس کے ليے انٹرنيٹ کے ذريعے جمع ہونے والی رقم کی وصولی اب تک ايک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ انڈيگوگو اور ٹوئٹر کی جانب سے بيس ہزار يورو کاٹے جانے کے بعد اس کے حصے کے قريب 168,000 ڈالر بنتے ہيں، جس کا ابھی اسے صرف چاليس فيصد ہی مل سکا ہے۔

ناروے کے صحافی اور ويب ڈيولپر گيسور سائمنارسن نے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ميں کافی خوش ہوں کہ العطار نے ايک ريستوران کھول ليا ہے اور ان کی بچوں کی ديکھ بھال بہتر انداز ميں ہو رہی ہے۔‘‘ تاہم وہ رقوم کی منتقلی ميں تاخير کے مسائل پر کافی ناخوش بھی ہيں۔

العطار اگرچہ اس بارے ميں الجھن کا شکار ہے کہ اسے بقايا رقم کی ادائيگی کيسے اور کب ہو گی تاہم وہ اب اپنی زندگی سے کافی مطمئن ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’جب خدا کسی کو کچھ دينا چاہتا ہے، وہ اس شخص کو مل ہی جاتا ہے۔‘‘