قربانی کے جانور زمین پر لیکن قیمتیں آسمان کو چھوتی ہوئی
بہت زیادہ مہنگائی کے باعث ان جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے کسی جانور کی قربانی کم آمدنی والے عام شہریوں کے بس کی بات نہیں رہی۔
اسلام آباد میں دو منڈیاں
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں قربانی کے جانوروں کی فروخت کے لیے دو منڈیاں سیکٹر آئی گیارہ اور آئی بارہ میں لگائی گئی ہیں، جہاں دن کی روشنی اور رات کو سرچ لائٹس کی چکا چوند میں خاص طور پر آج کل گاہکوں کا رش لگا رہتا ہے۔ ان منڈیوں میں پہاڑی بکروں، مینڈھوں، دنبوں، بچھڑوں، بیلوں اور اونٹوں سمیت ہر طرح کے قربانی کے جانور خریدے جا سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ قربان کیا جانے والا جانور
پاکستان میں پہاڑی بکرے اور مینڈھے سب سے زیادہ قربان کیے جانے والے جانور سمجھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت زیادہ مہنگائی کے باوجود بکرے قربانی کے دیگر جانوروں کے مقابلے میں سب سے کم قیمت ہوتے ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والا بکروں کا عارضی ڈیرہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی گیارہ کی ایک سروس روڈ پر لگائی گئی منڈی کا حصہ ہے، جہاں ان جانوروں کو دھوپ سے بچانے کے لیے شامیانے بھی لگائے گئے ہیں۔
عمر کے تعین کے لیے دانتوں کا معائنہ
قربانی کا جانور تندرست اور ہر قسم کے جسمانی نقص سے پاک ہونا چاہیے۔ بہت چھوٹی عمر کے جانوروں کی قربانی بھی نہیں کی جاتی۔ اس تصویر میں ایک تاجر ایک ممکنہ خریدار کو اپنے ایک بکرے کے صحت مند اور قربانی کے لائق ہونے کا قائل کرنے کے لیے اس کے دانت دکھا رہا ہے۔ ایسے اکثر چھوٹے تاجر بھیڑ بکریاں پالنے والے سال بھر کی محنت کے بعد اپنے لیے اچھی آمدنی کی امیدوں کے ساتھ ان منڈیوں کا رخ کرتے ہیں۔
گاہکوں کا انتظار
ایک تاجر صبح کے وقت گاہکوں کے انتظار میں اپنے بکروں کو ایک جگہ جمع رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر تاجر کے پاس اپنی مقررہ جگہ ہوتی ہے تاکہ اس کے جانور کسی دوسرے بیوپاری کے جانوروں میں گم نہ ہو جائیں۔ اس کے لیے اکثر تاجروں نے اپنے جانوروں کی پہچان کے لیے ان کے جسم پر مخصوص رنگوں سے نشان بھی لگائے ہوتے ہیں۔ جس خریدار کو ایسا کوئی بکرا اٹھارہ بیس ہزار روپے میں مل جائے، وہ خود کو خوش قسمت ہی سمجھے گا۔
دنبوں سے بھرا ٹرک
چند قبائلی خطوں سمیت پاکستان کے کئی پختون علاقوں میں زیادہ چربی کی وجہ سے عید پر روایتی طور پر دنبے کی قربانی کی جاتی ہے۔ اس سال مجموعی طور پر دنبوں کی نسبت بکروں اور گائے یا بچھڑوں کی فروخت زیادہ رہی ہے۔ اس تصویر میں صوبے خیبر پختونخوا سے آنے والے دنبوں سے بھرے ایک ٹرک کو خالی کیا جا رہا ہے۔ وہاں موجود ایک تاجر کے مطابق اس سال ایک عام دنبے کی قیمت بیس سے پچیس ہزار روپے تک رہی۔
عارضی بکرا منڈی
اسلام آباد میں سی ڈی اے نے سیکٹر آئی الیون کی مشرقی سروس روڈ پر کافی وسیع علاقے میں قربانی کے جانوروں کی جو عارضی منڈی قائم کرنے کی اجازت دی، اس میں ہر تاجر کی کوشش ہے کہ اس کے تمام جانور عید سے ایک رات پہلے تک فروخت ہو جائیں۔ عیدالاضحٰی تین دن تک منائی جاتی ہے اور دوسرے اور تیسرے دن جانوروں کی قیمتیں کافی گر جاتی ہیں۔ اس تصویر میں ایک تاجر ایک ممکنہ خریدار کو اپنے بکرے دیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے۔
جانوروں کے لیے چارہ
عید کے موقع پر لگائی گئی قربانی کے جانوروں کی منڈیوں میں چونکہ یہ جانور اور ان کے مالکان کئی دنوں تک قیام کرتے ہیں، اس لیے ان جانوروں کے لیے وہیں پر سبز اور خشک چارے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ عام صارفین جو ان منڈیوں سے قربانی کے جانور خریدتے ہیں، وہ ایسی عارضی دکانوں سے ان جانوروں کے لیے چارہ خرید کر ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔
خیموں میں قیام
راولپنڈی اور اسلام آباد میں قربانی کے جانور لے کر آنے والے تاجر عام طور پر خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع کے علاوہ پنجاب میں تلہ گنگ، جہلم، چکوال، میانوالی، حسن ابدال اور فتح جنگ جیسے علاقوں سے یہاں آتے ہیں۔ عید سے پہلے کے قریب دو ہفتوں کے دوران ان افراد کا قیام انہی منڈیوں میں لگائے گئے خیموں میں ہوتا ہے، جہاں یہ لوگ شب بسری کرتے ہیں۔ تصویر میں ایسے ہی ایک خیمے میں چند لوگ چائے پی رہے ہیں۔
گائے بیل کے ساتھ ساتھ اونٹ بھی
ایسی منڈیوں میں بکروں اور گائے بیل کے علاوہ اونٹ بھی لائے جاتے ہیں۔ اس تصویر میں اونٹوں کا مالک اپنے جانوروں کے قریب بیٹھا سستا رہا ہے۔ بکرے کی قربانی عام طور پر ایک مسلمان اکیلا ہی کرتا ہے جبکہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں بیک وقت کئی مسلمان حصہ ڈال کر شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں عید کے موقع پر بکروں اور بچھڑوں کے مقابلے میں اونٹ بہت کم ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی لاکھوں میں ہوتی ہیں۔
دھنی نسل کے بیل
یہ ہیں دھنی نسل کے بیل، جن کا وطن پنجاب کے اضلاع میں سے اٹک، چکوال، راولپنڈی یا پھر جہلم میں سے کوئی علاقہ ہوتا ہے۔ ان بیلوں کی جلد سفید ہوتی ہے یا پھر اس پر جگہ جگہ سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔ ایسا ایک عام بیل کا وزن ساڑھے تین سو سے ساڑھے چار سو کلوگرام تک ہوتا ہے اور گائے کا وزن دو سو ستر سے لے کر سارھے تین سو کلو گرام تک۔ ایسے ایک جانور کی قیمت کم از کم بھی ڈیرھ سے دو لاکھ روپے کے درمیان تک ہوتی ہے۔
ساہیوال کا بیل
یہ ساہیوال نسل کا ایک ایسا صحت مند بیل ہے، جس کا وطن پنجاب کے ساہیوال، ملتان اور فیصل آباد جیسے اضلاع کو قرار دیا جاتا ہے۔ دیکھنے میں انتہائی خوبصورت یہ جانور ڈھائی تین لاکھ روپے میں خریدا جا سکتا ہے جبکہ اسے اگر اچھی طرح سجایا گیا ہو تو اس کی قیمیت کم از کم بھی چار لاکھ روپے تک طلب ہو سکتی ہے۔ اس نسل کی ایک گائے دودھ دینے کے اپنے ایک سیزن میں اوسطاﹰ ڈیڑھ ہزار سے ڈھائی ہزار لٹر تک دودھ دیتی ہے۔
رات کے وقت بھی خریداروں کے لیے تیار
قربانی کے جانوروں کی منڈی میں گاہکوں کا ہجوم صرف دن کے وقت ہی دیکھنے میں نہیں آتا بلکہ رات گئے تک ممکنہ خریداروں کا تانتا بندھا رہتا ہے، خاص طور پر جب عیدالاضحٰی میں دو تین دن ہی رہ جاتے ہیں۔ اس تصویر میں مویشی پالنے والا ایک شخص پنجاب سے لائے گئے اپنے دھنی نسل کے تین بیلوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، جنہیں خریدنے سے پہلے کوئی بھی گاہک رات کے وقت بھی ہرطرح سے اپنی تسلی کر سکتا ہے۔
قیمت کم از کم بھی چار لاکھ
قربانی کا جانور خریدنے کے عمل میں خریدار کے بچوں کی پسند بھی کافی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن بچوں کی ایسے جانوروں سے محبت محض چند روزہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ آدھی رات کے وقت سرچ لائٹس کی روشنی میں، جب منڈی میں بہت سے خریدار اپنے لیے قربانی کے جانور تلاش کر رہے تھے، اس سیاہ اور سفید دھنی بیل کے مالک کا کہنا تھا کہ وہ اس ’شاندار‘ بیل کو چار لاکھ سے کم قیمت پر فروخت نہیں کرے گا۔
کاروبار کی امید عید کے تیسرے دن تک
اکثر تاجر اپنے جانوروں کو نہلا دھلا کر اور سجا کر فروخت کے لیے منڈی میں لاتے ہیں۔ جو جانور ممکنہ گاہک کے ساتھ قیمت پر کوئی اتفاق نہ ہونے کے باعث عید سے ایک رات پہلے تک فروخت نہ ہو سکیں، بیچنے والوں کو ان کی فروخت کی امید عید کے دوسرے اور تیسرے روز تک بھی رہتی ہے۔ لیکن نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس تین روزہ مسلم تہوار کے آخری دو دنوں کے دوران قربانی کے جانوروں کی قمیتیں کافی کم ہو جاتی ہیں۔