1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاہرہ میں مظاہرے جاری، مزید تین افراد مارے گئے

19 دسمبر 2011

مصری دارالحکومت قاہرہ میں حکومت مخالف مظاہرین چوتھے روز بھی التحریر چوک پر اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار روز سے جاری ان مظاہروں میں اب تک کم ازکم چودہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13VcH
تصویر: dapd

خبر رساں ادارے اے پی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کی صبح سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں تین مظاہرین مارے گئے۔ وزارت صحت نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

فوجی قیادت کے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین گزشتہ تین ہفتوں سے التحریر چوک پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ حسنی مبارک کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد قاہرہ میں شروع ہونے والے نئے مظاہرے جمعہ کے دن اُس وقت تشدد کا رنگ اختیار کر گئے تھے، جب فوجی اہلکاروں نے مظاہرین کو طاقت کے زور پر منتشر کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔

فوجی قیادت کے بقول پیر کو کی جانے والی نئی عسکری کارروائی کا مقصد اہم حکومتی عمارات کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانا ہے۔ التحریر چوک کے نزدیک ہی پارلیمان کی عمارت موجود ہے جبکہ عوام میں نفرت کا باعث بن جانے والی وزارت داخلہ کے صدر دفاتر بھی اسی مقام پر قائم ہیں۔

Gewalt und Ausschreitungen in Ägypten
گزشتہ تین ہفتوں کے دوران چالیس افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: dapd

پیر کو سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کے ایک اعلیٰ کمانڈر جنرل عدیل عمارہ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ پارلیمان کی عمارت کو جلانے کی سازش تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سازش کے عیاں ہونے کے بعد ملکی فوج نے حکومتی عمارتوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کر لیے ہیں۔

جنرل عدیل عمارہ نے میڈیا کی کوریج کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ ملکی فوج اہم حکومتی عمارات کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتی، ’یہ فوج کی ذمہ داری ہے کہ سرکاری اور نجی املاک کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے‘۔ انہوں نے مظاہرین کے خلاف عسکری کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ منظم سازش کے تحت حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

امریکی نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے مظاہروں میں شامل ایک ڈاکٹر احمد سعد نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے پیر کی صبح مظاہرین پر بلااشتعال تشدد کیا اوربراہ راست فائرنگ کردی، ’یوں معلوم ہوتا تھا کہ گولیوں کی بارش ہورہی ہو‘۔

التحریر اسکوائر پر موجود مظاہرین اس احتجاج کو منظم کرنے کے لیے فیس بک، ٹوئٹر اور سماجی روابط کے لیے بنائی گئی دیگر ویب سائٹس کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کی ویڈیوز بنا کر یو ٹیوب پر بھی اپ لوڈ کر دی ہیں۔

حسنی مبارک کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد فروری میں حکومت سنبھالنے والی فوجی کونسل اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یورپی یونین سمیت پوری عالمی برادری نے مطالبہ کیا ہے کہ مصری فوج طاقت کے ناجائز استعمال کو ترک کر دے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں