1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاتل کے پیچھے پاگل، عشق واقعی اندھا ہوتا ہے

عدنان اسحاق19 اگست 2015

وکٹوریہ کا دل اُس جنونی قاتل کے لیے دھڑکتا ہے، جِس نے ناروے میں 77 بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلایا تھا اور جسے لوگ آندرس بیہرنگ بریوک کے نام سے جانتے ہیں۔ ’’میں بریوک کو خود سے جدا محسوس نہیں کر سکتی‘‘۔

https://p.dw.com/p/1GHiF
تصویر: Fotolia/matttilda

وکٹوریہ خود کو اُس سے اتنا بے تکلف محسوس کرتی ہے کہ وہ اُسے اُس کے پہلے نام ہی سے مخاطب کرتی ہے۔ وہ اسے ہر ہفتے خط لکھتی ہے، جن میں انتظار کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ بریوک دوسری عالمی جنگ کے بعد ناروے میں اب تک کے سب سے بڑے قتل عام کا ذمہ دار ہے۔ وکٹوریہ کہتی ہے:’’میں بریوک کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی‘‘۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی اس رپورٹ میں وکٹوریہ کا اصل نام بدل کا پیش کیا گیا ہے۔ وکٹوریہ کا تعلق سویڈن سے ہے اور اس کی عمر بیس اور تیس سال کے درمیان ہے۔ اس انٹرویو کے دوران آندرس بیہرنگ کا ذکر آتے ہی اس کی آواز بھرا سی جاتی تھی۔

سویڈن کے ایک چھوٹے سے علاقے میں بیٹھ کر وہ ناروےکی جیل میں قید بریوک کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہتی ہے، جس سے اس کے محبوب کی تکالیف کم ہو سکیں۔ بریوک نے جیل میں گزشتہ چار برس قید تنہائی میں گزارے ہیں۔ وکٹوریہ کی نظر میں بریوک کو تنہا رکھنا ’تشدد‘ کے مترادف ہے:’’مجھے اب اس کی اور بھی زیادہ فکر ہے کیونکہ وہ مشکل صورت حال میں ہے‘‘۔

Anders Behring Breivik
ایک مقامی ہفت روزہ کے مطابق بریوک کو گزشتہ برس تقریباً آٹھ سو خطوط لکھے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر خواتین کے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein

وکٹوریہ بے روزگار ہے اور وہ اپنے محبوب کی ہمت بڑھانے کے لیے اس سے مسلسل رابطے میں ہے۔ وہ ابھی تک ڈیڑھ سو سے زائد پیام لکھ چکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اسے کچھ تحائف بھی بھیج چکی ہے، جن میں نیلے رنگ کی ایک ٹائی بھی ہے، جسے بریوک نے مقدمے کی کارروائی کے دوران کئی مرتبہ پہنا بھی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 2012ء میں مقدمے کی کارروائی کے دوران ایک سولہ سالہ لڑکی نے اُسے شادی کی بھی پیشکش کی تھی۔

جواب میں وکٹوریہ کو اپنی محبت کی طرف سے دو جواب بھی ملے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر خطوط جیل انتظامیہ نے’سینسر‘ کر دیے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ بریوک سے اپنے رشتے کو بیان نہیں کر سکتی:’’تمام تر کوششوں کے باوجود بریوک سے ملنے کی میری تمام درخواستیں رد کر دی گئیں‘‘۔

ایک مقامی ہفت روزہ کے مطابق بریوک کو گزشتہ برس تقریباً آٹھ سو خطوط لکھے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر خواتین کے تھے۔ سلاخوں کے پیچھے موجود قاتلوں یا دیگر جرائم پیشہ افراد سے جنسی رغبت رکھنے والوں یا انہیں چاہنے والوں کے لیے ’ہائی برسٹوفیلیا‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے قاتلوں کو ان کی چاہنے والی خواتین کی جانب سے تحفے تحائف کے علاوہ اکثر زیر جامہ ملبوسات بھی بھیجے جاتے ہیں۔

آندرس بیہرنگ بریوک اکیس سال کی سزا کاٹ رہا ہے اور خطرے کی صورت میں اس کی سزا میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بریوک نے2011ء میں اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے77 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔