1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی عدالتیں: گیارہ طالبان عسکریت پسندوں کو سزائے موت

امتیاز احمد3 مئی 2016

پاکستان کی فوجی عدالتوں نے مزید گیارہ طالبان عسکریت پسندوں کو موت کی سزا سنا دی ہے۔ ان ملزمان کو یہ سزائیں دہشت گردی کے مقدمات میں سنائی گئی ہیں۔ ان ملزمان کے خلاف مقدموں کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے کی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1IhHH
Raheel Sharif Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld

فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ’’کٹر دہشت گردوں کو شہریوں کے اغوا اور انہیں ہلاک کرنے، فوج اور پولیس کو نشانہ بنانے جب کہ اسکولوں کو دھماکا خیز مواد سے اڑانے اور کمیونیکیشن کا ڈھانچا تباہ کرنے جیسے جرائم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔‘‘

جاری ہونے والے بیان کے مطابق ان گیارہ ملزمان کا تعلق پاکستان تحریک طالبان سے ہے جو ایک عرصے سے پاکستانی فوج کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ سن دو ہزار ایک میں پاکستان نے افغانستان میں ہونے والی امریکی فوجی مداخلت میں امریکی حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد سے پاکستان کو مقامی عسکریت پسندوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔

پاکستان میں پشاور اسکول حملے کے بعد سے سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ پشاور اسکول حملے میں ایک سو چونتیس افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ان میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی۔ صرف گزشتہ برس تین سو چھبیس ملزمان کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ پاکستان نے سن دو ہزار چودہ میں سزائے موت کے عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستانی فوج نے سن دو ہزار چودہ سے شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے اور اس کے جواب میں طالبان بھی کئی جوابی حملے کر چکے ہیں۔

فوجی حکام کی طرف سے ان ملزمان کے خلاف مقدموں کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے کی گئی ہے اور یہ بھی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے اور کب گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بھی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کی مقدموں کی کارروائی کیسے کی گئی اور ان کے جرائم حقیقی ہونے کے حوالے سےکون سے شواہد پیش کیے گئے۔

پاکستان نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے فی الحال دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں تاکہ دہشت گردی کے ملزمان کو جلد از جلد سزائیں سنائی جا سکیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان فوجی عدالتوں میں سنائے جانے والے فیصلوں کی شفافیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتی ہیں۔