1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ، ’کیا نظریہ ضرروت ہے‘

شکور رحیم، اسلام آباد5 اگست 2015

پاکستانی سپریم کورٹ نے ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار اور فوجی عدالتوں کے دائرہ کار میں اضافے سے متعلق آئینی ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GAOa
تصویر: picture alliance/Photoshot

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترامیم کا لامحدود اختیار حاصل ہیں اور سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی آئینی ترامیم کو کالعدم دینے کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سترہ رکنی فل کورٹ نے اکیسویں اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر چھبیس جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق اکیسویں ترمیم کو پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کی بار ایسوسی ایشنوں سمیت پندرہ درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا جبکہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف سترہ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

فوجی عدالتوں اور آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ چیف جسٹس ناصرالملک نے تحریر کیا۔ نو سو دو صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں گیارہ ججوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں جبکہ چھ ججوں نے فوجی عدالتوں کے خلاف رائے دی۔ اسی طرح اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر چودہ ججوں نے اس ترمیم کے حق جبکہ تین نے مخالفت میں رائے دی۔

چیف جسٹس ناصرالملک نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینا عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں آتا، اس لیے یہ جائزہ لینا بھی ضروری نہیں کہ اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترمیم کو کن بنیادوں پر چیلنج کیا گیا تھا۔

فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد کسی بھی ملزم کو عدالتی نظرثانی کا حق حاصل ہے۔ اس عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ انہیں اس فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آئین میں آرٹیکل ٹین اے ہر شہری کو شفاف سماعت کا حق دیتا ہے لیکن فوجی عدالتوں سے جن لوگوں کو سزا دی گئی، ان کے مقدمے کی کارروائی تو دور کی بات، ان کے نام کا بھی کسی کو معلوم نہیں تو اس فیصلے سے آرٹیکل ٹین اے تو پامال ہوا ہے‘‘۔

کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ پھر نظریہ ضرورت زندہ کیا گیا ہے اور وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس اعجاز چوہدری، جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی شامل ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پچیس صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمان آئین سے بالا تر نہیں اور نہ ہی آئینی ترمیم کے حوالے سے اس کے اختیارات لامحدود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کے اختیارات کی حدیں ناصرف سیاسی نوعیت کی ہیں بلکہ خود آئین سے بھی واضح ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے مطابق عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ پارلیمان کی منطور کردہ آئینی ترامیم کو مخصوص حالات میں کالعدم قرار دے، اس لیے اکیسویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینا لازمی ہے۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی درخواست پر فوجی عدالتوں کی جانب سے دہشت گردی کے ملزمان کو دی جانے والی سزاؤں پر عملدرآمد کے خلاف حکم امتناعی بھی جاری کیا تھا۔

فوجی عدالتوں نے اپنے قیام کے بعد چھ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو موت کی سزا سنائی تھی، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کر دی تھی تاہم عدالت کے حکم امتناعی کے سبب ان سزاؤں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان سزاؤں پر اب عملدرآمد شروع ہو گا۔

وزیر اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم ہو گئی اور اب دہشت گردوں پر کاری ضرب لگے گی۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری عدالتوں نے ہمارے اس مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک ضرب عضب دہشت گردوں کے خلاف پہلے سے جاری ہے اور اب مقدمات کی تیز سماعت سے بھی ان کو کاری ضرب لگے گی۔‘‘

مغربی ممالک خصوصا یورپی یونین کی جانب سے پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد میں اضافے پر تشویش کے بارے میں ایک سوال کے جواب پر اشتر اوصاف نے کہا کہ ان مالک کو ہمارے حالت کو مدنظر رکھنا ہو گا اور یہاں دہشت گردی کے ہاتھوں ہونے والے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا۔

Oberster Gerichtshof von Pakistan in Islamabad
آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینا عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں آتا، چیف جسٹس ناصرالملکتصویر: picture-alliance/dpa

دریں اثناء پاکستانی وزیر اعظم اور پارلیمان میں موجود جماعتوں کے راہنماؤں نے فوجی عدالتوں کو جائز قرار دینے سے متعلق عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملے گی اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

نواز شریف نے کہا، ’’جج صاحبان کا یہ تاریخ ساز فیصلہ ہمارے مستقبل پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرے گا، یہ فیصلہ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ اور پارلیمینٹ کی بالادستی کی سند بھی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں تمام پالیمانی جماعتوں کو تحفظات تھے تاہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں