1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی ڈاکٹر میں صحت کی سہولتیں بہتر بنانے میں کوشاں

افسر اعوان9 فروری 2016

ڈاکٹر سليم الحاج يحيٰى نے گزشتہ ماہ جب فلسطینی مغربی کنارے میں پہلی بار مصنوعی دل کا ٹرانسپلانٹ کیا تو عوامی سطح پر تو ان کی از حد تعریف وتحسین کی ہی گئی، صدر محمود عباس نے بھی انہیں مبارکباد دی اور ان کے کام کو سراہا۔

https://p.dw.com/p/1HsFv
تصویر: DW

برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے کارڈیالوجسٹ یا ماہر امراض قلب ڈاکٹر یحیٰی اپنے مادر وطن میں لوگوں کے ہر دلعزیز شخصیت بن چکے ہیں۔ وہ اب فلسطین بھر میں طبی میدان میں بہتری لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر یحیٰی کا خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں نے برطانیہ میں بہت کچھ کر لیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ میں اپنے وطن میں اور اپنے لوگوں کے لیے کچھ کروں۔‘‘ 47 سالہ ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا، ’’برطانیہ میں آپ زیادہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں ایک نظام بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ لیکن یہاں کوئی بھی کامیاب کوشش ایک بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر سلیم الحاج یحیٰی کے اہداف مشہوری کی بجائے فلسطینی عوام کے لیے اس طرح کا طبی انفراسٹرکچر بنانا ہے جو نہ صرف ان کی ضروریات پوری کر سکتا ہو بلکہ وہ نظام اسرائیل پر کم سے کم انحصار کرتا ہو۔ اب تک صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی مشکل یا پیچیدہ آپریشن کرنے کے لیے اسرائیلی ہسپتالوں سے رُجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک طرف تو اسرائیلی طبی نظام پر انحصار کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف پہلے سے مشکلات میں گھری فلسطینی حکومت کے لیے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب تک صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی مشکل یا پیچیدہ آپریشن کرنے کے لیے اسرائیلی ہسپتالوں سے رُجوع کرنا پڑتا ہے
اب تک صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی مشکل یا پیچیدہ آپریشن کرنے کے لیے اسرائیلی ہسپتالوں سے رُجوع کرنا پڑتا ہےتصویر: Reuters

مغربی کنارے کے شہر نابلس میں واقع النجاح یونیورسٹی میں بنائے گئے اپنے دفتر میں موجود ڈاکٹر الحاج یحیٰی کا اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اسرائیل منتقل کیے جانے والے زیادہ تر مریض امراض قلب یا کینسر میں مبتلا تھے اور اب ہم نے اس سلسلے کو کافی حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ نیویارک سے کچھ فلسطینی ڈاکٹرز جو بون میرو ٹرانسپلانٹ میں مہارت رکھتے ہیں جلد ہی ہمیں جوائن کر لیں گے اور اس طرح ہم اس میدان میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہو جائیں گے۔‘‘

ڈاکٹر یحیٰی 2014ء میں فلسطین واپس لوٹے اور انہوں نے النجاح یونیورسٹی ٹیچنگ ہاسپٹل کے میڈیکل اسکول کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اس وقت سے اب تک وہ مسلسل اس ہسپتال کی سہولیات اور صلاحیتوں میں اضافے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحت سے متعلق مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی کوششوں بہت ثمر آور ثابت ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر یحیٰی اور ان کی ٹیم نے رواں برس جنوری میں ایک 18 سالہ ایسے لڑکے میں منصوعی دل لگایا تھا جو دل کی کئی خطرناک بیماریوں کا شکار تھا۔ ڈاکٹر یحیٰی کے مطابق اگر اس کا آپریشن نہ کیا جاتا تو وہ زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک زندہ رہتا تاہم اب یہ نوجوان رو بہ صحت ہے اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔