فضل اللہ ریڈیو اور حکومت پاکستان
30 جنوری 2009اس ریڈیو کا پرائم ٹائم شام 7تا رات 10 بجے تک ہے جس دوران مولانا فضل اللہ کا نائب مولانا شاہ دوران موجودہ نظام حکومت کی تضحیک، غیر ممالک میں غیر مسلموں کو پیش آنے والے واقعات یا اموات پر خوشی کا اظہار اور آخر میں مبینہ طالبان مخالف افراد اور گروہوں کے خلاف دھمکیاں سناتا اور سزاؤں کا اعلان کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ طالبان جنگجوئوں سے زیادہ دہشت شاہ دوران کی نشریات نے پھیلا رکھی ہے اور کافی عرصے سے اکثر سواتی باشندوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ آخر حکومت فضل اللہ ریڈیو کو بند کرنے میں ناکام کیوں ہے۔غالباً اسی تناظر میں وزیر اطلاعات شیری رحمن نے فضل اللہ ریڈیو کے خلاف اقدامات کے حوالے سے کہا ہے :’’ریڈیو ڈیوائسز اور فریکوئنسیز کا استعمال ناجائز ہو رہا ہے اور ہم متحرک ہیں ہم نے صوبائی وزارت کو اس معاملہ میں شامل کیا ہے اپنی طرف سے پیمرا ، پی ٹی اے اور فریکوئنسی بورڈ کو ہم نے وسائل بھیجے ہیں بجٹ بھی یہاں سے گئے ہیں تا کہ اس کو روک سکیں یہ پاکستان کی سرحدوں بلکہ ملکی نظریات اور ملک کے قوانین کے خلاف ہے ‘‘۔
فضل اللہ ریڈیو ختم کرنے کے لئے حکومت نے جیمرز خریدنے کا بھی اعلان کیا ہے مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ڈویچے ویلے کو بتایا ہے کہ سوات اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں جاری غیر قانونی نشریات کے خاتمے کے لئے جلد ہی جیمرز خرید لئے جائیں گے۔ اسی تناظر میں مشیر داخلہ رحمن ملک نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں سوات اور فاٹا پر ایک پالیسی بیان میں کہا کہ صوبہ سرحد میں اب تک 2400 پولیس اہلکار یا تو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جانوں کو درپیش خطرات کے باعث نوکری چھوڑ چکے ہیں یا مارے جا چکے ہیں۔
رحمن ملک نے پہلی مرتبہ اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ بیت اللہ محسود اور خودکش بمباروں کا ٹرینر قاری حسین اپنے جنگجوؤں کو پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہیں دیتے ہیں جبکہ پولیس اور فوجیوں کی اوسط تنخواہ چار ہزار روپے ہے ۔ طالبان کے خلاف جنگ کو حتمی نتائج تک پہنچانے کے عزم کے اعادے کے ساتھ ساتھ رحمٰن ملک نے ملکی ذرائع ابلاغ سے جنگجوؤں کی کوریج کا بلیک آؤٹ کرنے کی اپیل بھی کی۔