فرانس نے دہشت گردوں کی شہریت کی منسوخی کا منصوبہ ترک کر دیا
30 مارچ 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں پیرس میں متعدد مقامات پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد فرانسیسی صدر فرانسوا الانڈ کی جانب سے ایک سخت ترین موقف کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان حملوں میں 130افراد کی ہلاکت اور درجنوں دیگر کے زخمی ہونے کے بعد فرانسوا اولانڈ نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
روئٹرز کے مطابق حالانکہ اس منصوبے کو بڑی عوامی حمایت حاصل ہے اور فرانسوا اولانڈ کی غیرمقبول سوشلسٹ جماعت کے پاس موقع تھا کہ وہ اس منصوبے کو منظور کروا کر دائیں بازو کے ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکے، تاہم اس منصوبے پر عمل درآمد کا مطلب دستور میں ترمیم ہوتی اور اس کے لیے حکومت پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو پائی۔
اولانڈ نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے منصوبوں کو سبوتاژ کر رہی ہے، تاہم ہنگامی حالت کے دوران شہریت کی منسوخی جیسے اقدامات کے لیے دستور میں جگہ بنانے کے منصوبے کو ان کی اپنی جماعت کے متعدد ارکان کی مخالفت کا سامنا بھی رہا۔
بدھ کے روز کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد اولانڈ کا کہنا تھا، ’’اپوزیشن کے کچھ دھڑے دستور میں ترمیم کو مسئلہ بنا رہے ہیں، جو نہایت افسوس ناک بات ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ بحث ہی ختم کر دی جائے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق عوامی مقبولیت کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ اولانڈ اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو پائیں گے۔
بدھ کے روز اس اعلان سے قبل کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق اگر اس وقت انتخابات ہوں، تو صدر اولانڈ کو 16 فیصد ووٹ پڑیں گے۔ ایک ماہ قبل جاری کردہ ایک جائزے کے نتائج کے مطابق تب یہ حمایت 20 فیصد تھی۔
روئٹرز کے مطابق اس سے واضح ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں شاید اولانڈ تیسری پوزیشن پر ہوں گے اور ان سے آگے سابق صدر نکولا سارکوزی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کی امیدوار مارین لے پین ہیں۔ لے پین کو اس وقت27 فیصد جب کہ سابق صدر نکولا سارکوزی کو 21 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
گزشتہ ہفتے اپوزیشن کی اکثریت کے حامل ایوان بالا نے اولانڈ کی جماعت کی اکثریت کے حامل ایوان زیریں کے منظور کردہ منصوبے کے مقابلے میں ایک نیا ورژن منظور کیا تھا۔ تاہم دستور میں تبدیلی کے لیے دونوں ایوانوں کو بیک وقت ایک ہی منصوبے پر اتفاق رائے کی ضرورت تھی۔