1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس میں ’نئی زندگی کا‘ ہنر سیکھتے مہاجرین

شمشیر حیدر Conroy, Erin, Paris
2 اپریل 2017

عام طور پر فرانس پہنچنے والے مہاجرین کو چھوٹے موٹے کام کر کے زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ لیکن اب کچھ ادارے انہیں نئے ہنر سکھانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ وہ فرانس میں اپنا مستقبل بہتر انداز میں بنا سکیں۔

https://p.dw.com/p/2aWMy
Frankreich Paris Neue Karrieren
تصویر: DW/E. Conroy

یاسر محمد الامین اپنے ہنر کے باعث اپنے وطن میں مشہور تھا۔ اس کے بنائے ہوئے مٹی کے برتنوں اور فن پاروں کی نمائش نہ صرف اس کے ملک سوڈان میں بلکہ سوئٹزرلینڈ اور ویلز میں بھی کی جا چکی تھی۔ الامین نے خرطوم کی یونیورسٹی سے آرٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی اور وہ اپنے شہر میں انٹیریئر ڈیزائنر کے طور پر کام کر رہا تھا۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

لیکن اڑتالیس سالہ یاسر محمد الامین نے جب اپنے ملک میں جاری جنگ کے باعث ہجرت کی اور سیاسی پناہ کی تلاش میں فرانس کا رخ کیا تو وہاں اسے بطور فنکار نوکری ملنا تقریباﹰ ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ اسے لینڈ اسکیپنگ کی ایک نوکری ملی، جس نے اس کی تنہائی میں اضافہ ہی کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے یوں لگا، جیسے اس کی روح دریائے نیل کے کنارے اس مقام پر کہیں کھو چکی ہے، جہاں بیٹھ کر وہ کبھی اپنے فن پارے تخلیق کیا کرتا تھا۔

الامین کی طرح کے ایسے سینکڑوں تارکین وطن فرانس میں مہاجر کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں، جو اپنے اپنے فن اور ہنر میں مہارت رکھتے ہیں۔ فرانس میں اچھی ملازت حاصل کرنے کی راہ میں ان کے لیے کئی رکاوٹیں ہیں۔ ان میں فرانسیسی زبان سے ناآشنائی، آبائی وطن میں حاصل کی گئی ڈگریوں کو تسلیم نہ کیا جانا اور ان سب سے بڑھ کر فرانسیسی دفتر شاہی شامل ہیں۔ انہی وجوہات کی بناء پر ان ہنر مند مہاجرین کو ٹرک لوڈ کرنے یا صفائی ستھرائی کرنے جیسی ملازمتیں ہی مل پاتی ہیں۔

لیکن الامین اور اس جیسے کئی دوسرے خوش قسمت مہاجرین نے آخرکار اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے، کسی اسٹوڈیو میں ملازمت کرنے اور اپنے فن پاروں کو یورپی مارکیٹ میں پہنچانے میں کامیابی بھی حاصل کر لی ہے۔ ’لا فابریک نومیڈ‘ نامی ایک ادارے نے پیرس کی ایک گیلری میں ایک نمائش کا انعقاد کیا ہے، جہاں ان مہاجر فنکاروں کے تیار کردہ فن پاروں کی نمائش کی جا رہی ہے اور یہ فن پارے انٹرنیٹ پر بھی فروخت کے لیے رکھے گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران الامین کا کہنا تھا، ’’مجھے یقین نہیں تھا کہ یہاں میں کبھی اپنا کام پیش کر سکوں گا۔ ہاں مجھے زیادہ اچھا لگتا اگر میں پیرس میں اپنے کام کی نمائش ایک فن کار کے طور پر کر رہا ہوتا، نہ کہ ایک مہاجر کے طور پر۔ لیکن ظاہر ہے کہ میں اپنے فن پاروں کی نمائش پر بہت خوش ہوں۔ یہ میرے لیے ایک خواب کی طرح ہے۔‘‘

الامین نامور فرانسیسی فنکار ڈے لییُو کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جو اب اسے اپنا ہنر بھی سکھا رہا ہے۔ ڈے لییُو کا کہنا تھا، ’’یہ تہذیبوں کا ملاپ ہے، جو ڈیزائنرز کے لیے بہت اہم ہے۔ الامین کا ایک منفرد اسٹائل ہے اور میں صرف اسے اپنے نقطہٴ نظر سے تجاویز دیتا ہوں تاکہ اس کا کام فرانسیسی مارکیٹ میں فروخت کے قابل ہو سکے۔‘‘

’لا فابریک نومیڈ‘ کی بانی اینس میسمار کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد مہاجرین کی یوں مدد کرنا ہے کہ ان کا کھویا ہوا وقار اور عزت نفس دوبارہ بحال ہو سکے۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے