فرانس میں بھی کثیر الثقافتی پالیسیاں ناکام
11 فروری 2011جمعرات کے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں میزبان ممالک کی جانب سے دیگر ثقافتوں اور مذاہب کے تارک وطن گروہوں کو معاشرے میں خوش آمدید کہنے اور ان کی پرورش کی پالیسی کے حوالےسے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فرانسیسی صدر کا کہنا تھا، " میرا جواب ہاں میں ہے ، ہاں یہ ناکام ہے"۔ وہ مزید کہتے ہیں، " ظاہر ہے ہم سب کو ایک دوسرے کےثقافت کا احترام کرنا چاہئے لیکن ہم ایک ایسا معاشرہ نہیں چاہتے جہاں مختلف سماجی گروہ بیک وقت موجود ہوں۔"
ان کے مطابق اگر کوئی فرانس آنا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے ایک یک جہتی معاشرے یعنی ایک قومی کمیونٹی میں گھل مل کر رہنا ہو گا لیکن اگر کسی کو یہ قبول نہیں ہے تو یہ ملک اسے قبول نہیں کرے گا۔
اس انٹرویو میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر نکولا سارکوزی نے مزید کہا کہ فرانسیسی معاشرہ اپنے طرز زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ بجائے اپنے ملک کی شناخت کا خیال کرنے کے ہم اپنےملک میں آنے والوں کی شناخت کے حوالے سے بہت فکر مند رہتے ہیں۔
فرانسیسی صدر نے اپنے اس انٹریو میں یہ بھی کہا ہے کہ مسلم ہم وطنوں کواس بات کی تو اجازت ہے کہ وہ عام شہریوں کی طرح اپنے مذہب پر عمل کر یں تاہم فرانس یہ بالکل نہیں چاہتا کہ یہ لوگ ملک کی سڑکوں پر کھڑے ہوکر اپنی عبادات کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے ایک رہنما Marine Le Pen نے مسجدوں میں گنجائش کی کمی کےباعث مسلمانوں کے مسجد سے باہر سڑکوں پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے طریقے کو نازی طریقہ کار سے تشبیہ دی تھی، جس پر انہیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون، جرمن چانسلر انگیلا میرکل، آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم جان ہاورڈ اور اسپین کے سابق وزیر اعظم ازنار نے بھی حالیہ دنوں میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کے ممالک کی کثیر الثقافتی پالیساں تارک وطن مہاجرین کو معاشرے میں ضم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عدنان اسحق