1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس بھر میں ہڑتال اور احتجاجی ریلیاں

امتیاز احمد31 مارچ 2016

فرانس کے طالب علموں اور ملازمین نے متعدد احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں، جن میں سے کئی ایک پرتشدد بھی رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ٹرین ڈرائیور اور اساتذہ بھی لیبر قوانین میں تبدیلیوں کو مسترد کرتے ہوئےہڑتال پر چلے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1INMH
Paris Schüler Studenten demonstrieren
تصویر: Reuters/C. Hartmann

فرانسیسی دارالحکومت میں طالب علموں کا ابتدا میں پرامن احتجاج بعد میں اس وقت پرتشدد ہوا، جب چند درجنوں افراد نے املاک کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔ ان مشتعل مظاہرین نے چہروں پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور ہوڈ والی جرسیاں زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ان مظاہرین نے دکانوں اور بینکوں پر پینٹ بم پھینکنا شروع کر دیے تھے۔

ان میں سے متعدد مظاہرین نے ڈنڈوں کی مدد سے کیش مشینوں کو توڑنا شروع کر دیا جبکہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد چھوٹی چیزوں کو آگ لگاتے ہوئے پولیس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ فرانس بھر میں ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں طلبہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ ملک کی بڑی مزدور یونینز بھی شریک تھیں۔ ان کا مقصد برسراقتدار سوشلسٹ حکومت کے اس بل کے خلاف احتجاج کرنا تھا، جس کے تحت مبینہ طور ہر مزدوروں کے حقوق پر ذد آئے گی۔

Frankreich Studenten protestieren in Paris
تصویر: Getty Images/AFP/T. Samson

مقامی میڈیا کے مطابق فرانسیسی شہروں نینٹیس اور رنے میں بھی پولیس اور مظاہرین کے چھوٹے گروپوں کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اس ہڑتال سے اسکول، سرکاری ہسپتال اور سرکاری براڈکاسٹرز بھی متاثر ہوئے ہیں۔اس ہڑتال کی وجہ سے پیرس کا چارلس ڈے گال ایئرپورٹ تو متاثر نہیں ہوا تاہم اورلے کے ہوائی اڈے پر بیس فیصد پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔

مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں ریاستی ریلوے کمپنی نے علاقائی اور قومی ٹرینوں کی سروس معطل کر دینے کی دھکمی دی ہے۔ پیرس کی پہچان سمجھا جانے والا ایفل ٹاور بھی آج سارا دن بند رہا۔ ایفل ٹاور کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اسٹاف ہی نہیں ہے کہ وہ اسے کھول سکے۔

فرانس کی سوشلسٹ حکومت کا کہنا ہے کہ لیبر قوانین میں اصلاحات سے معیشت میں بہتری آئے گی جبکہ آجر کمپنیوں کو بھی نئے ملازمین رکھنے اور پرانے ملازمین کو فارغ کرنے میں مدد ملے گی۔

فرانس میں اس وقت بے روزگاری کی شرح تقریباﹰ دس فیصد ہے۔ مجوزہ اصلاحات کے تحت تکنیکی طور پر ملازمین ہفتے میں پینتیس گھنٹے ہی کام کریں گے لیکن کمپنیوں کو متبادل ورکنگ اوقات تشکیل دینے کی اجازت مل جائے گی۔ اس کے علاوہ ہفتے میں اڑتالیس گھنٹے کام بھی ممکن ہو سکے گا اور فی دن بارہ گھنٹے بھی۔ مسودے کے مطابق ’’غیرمعمولی حالات میں ملازمین ہفتے میں ساٹھ گھنٹے کام کر سکیں گے۔‘‘ اپریل میں اس بل پر پارلیمان میں بحث ہو گی۔