غیرت کے نام پر قتل، ماں کی محبت پر یقین کیسے ہو؟
9 جون 2016جلی ہوئی اینٹوں سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوئی دو بچیاں جلی ہوئی راکھ میں شاید اس مہربان اور نرم خو کم عمر لڑکی کو تلاش کر رہی تھیں جس نے انہیں قرآن پڑھایا تھا اور جسے اس کی ماں نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کے جرم میں بے رحمی سے جلا دیا۔
ماہم اور مسکان کو اس مقام پر نظریں جمائے دیکھا جا سکتا ہے جہاں چند گھنٹے پہلے 16 سال کی زینت کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگائی گئی تھی۔
ماہم کی ماں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس رات اسے اپنی روتی بلکتی اور اندیشوں میں گرفتار بیٹی کو یقین دلانا پڑا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے۔
ماہم کی والدہ رانی بی بی نے مزید کہا، ’’ماہم اس رات میرے ساتھ سوئی۔ وہ بہت رو رہی تھی اوراس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ سونے سے پہلے وہ کئی سوالات کرتی رہی کہ میری ٹیچر کو اس کی امی نے کیوں مار دیا۔ اس پر میں نے اسے یقین دلایا کہ وہ پریشان نہ ہو میں اس سے بہت پیار کرتی ہوں۔‘‘
تصویر میں گلابی اور سیاہ کپڑوں میں ملبوس جلے ہوئے منظر کو اداسی سے دیکھتی ہوئی ماہم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی ٹیچر کے جسم پر پڑی چادر کے نیچے سے صرف اس کے پاؤں دیکھے تھے۔
ماہم کی ماں کے مطابق، ’’جب اس نے اپنی استانی کو مردہ حالت میں دیکھا تو وہ بہت خوفزدہ ہو گئی اور اس نے رونا شروع کر دیا۔‘‘
دس سالہ مسکان پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں زینت کے گھر کے سامنے رہتی ہے۔ مسکان کی دادی نسرین بی بی نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسکان بھی اس سے قرآن پڑھا کرتی تھی۔ نسرین بی بی نے اپنی پوتی کے بارے میں بتایا، ’’جب وہ زینت کے گھر سے واپس آئی تو اس کا چہرہ زرد پڑا ہوا تھا اور وہ بہت خوفزدہ نظر آ رہی تھی۔‘‘
دونوں خواتین کا کہنا تھا کہ زینت بہت اچھی طبیعت کی تھی۔
پاکستان میں پولیس کا کہنا ہے کہ زینت کو اس کی ماں نے حسن خان نامی شخص سے خاندان کی مرضی کے بغیر شادی کرنے پر بدھ آٹھ جون کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے نتیجے میں زینت کے جسم کا نوے فیصد حصہ جھلس گیا تھا۔
اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا جلائے جانے کے وقت زینت زندہ تھی کہ نہیں، پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ زینت کے رشتہ داروں میں سے کسی نے بھی اس کی لاش حاصل کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا اس لیے اس کے شوہر کے خاندان نے زینت کی جلی ہوئی لاش کو دفنایا۔ اس بہیمانہ قتل سے پاکستان میں نام نہاد ’غیرت کے نام پرقتل‘ کے خلاف ایک نئی احتجاجی لہر اٹھی ہے جہاں سینکڑوں خواتین کو ان کے رشتہ داروں کی جانب سے مبینہ طور پر اپنے خاندانوں کے لیے باعث شرمندگی ہونے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔