غیرت کے نام پر بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں کو موت کی سزا
16 جنوری 2017پروین بی بی کو سزائے موت پاکستانی شہر لاہور میں قائم انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے سنائی۔ غیرت کے نام پر قتل کے اس کیس میں سزا اس عدالت کے جج چوہدری محمد الیاس نے سنائی۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ مرنے والی لڑکی زینت رفیق کا بھائی اور بہنوئی بھی اس واردات میں ملوث تھے اور اُنہوں نے بھی پروین بی بی کی معاونت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے مقتولہ زینت رفیق کے بھائی انیس کو عمر قید کا حکم سنایا گیا جبکہ بہنوئی کو بری کر دیا گیا۔ اس سے پہلے پروین بی بی نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا اور کہا تھا کہ اُس نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کہ زینت رفیق کا اپنی پسند سے شادی کرنے کا اقدام خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا تھا۔
عدالت میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ پہلے پروین بی بی نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر زینت کو بری طرح سے زد و کوب کیا تھا، جس کے بعد پروین بی بی نے مٹی کا تیل چھڑک کر اپنی بیٹی کو آگ لگا دی تھی۔
لاہور کے ایک پسماندہ علاقے فیکٹری ایریا کی رہائشی زینت رفیق نے اپنے قتل سے تقریباً ایک ہفتہ قبل گھر سے بھاگ کر حسن خان نامی ایک نوجوان سے کورٹ میرج کر لی تھی۔ بعد ازاں زینت کے گھر والوں نے حسن خان کے ساتھ صلح کر لی اور وعدہ کیا تھا کہ وہ باقاعدہ شادی کی تمام رسومات انجام دیتے ہوئے اپنے گھر سے زینت کو رخصت کریں گے۔ اس وعدے کے بعد حسن خان نے اپنی اہلیہ کو میکے جانے کی اجازت دے دی تھی۔
حسن خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینت واپس گھر نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ اُسے ڈر تھا کہ اُسے ہلاک کر دیا جائے گا۔ ایک مقامی ٹی وی چینل کے مطابق زینت پھر بھی اس بناء پر گھر جانے کے لیے راضی ہو گئی تھی کہ اُسے ہر طرح سے تحفظ اور سلامتی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
گھر سے دھواں اٹھنے پر ریسکیو اداروں اور پولیس کو اطلاع دی گئی تھی، جنہوں نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھائی لیکن تب تک زینت مر چکی تھی۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زینت رفیق کے خاندان کا کوئی بھی فرد اُس کی کوئلہ بن چکی لاش کو وصول کرنے پر تیار نہ ہوا، جس کے بعد اُس کے سسرال والوں نے اُس کی میت کو ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا۔
ٹامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے لیے لاہور سے اپنی ایک رپورٹ میں وقار مصطفیٰ نے لکھا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستانی پارلیمان نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے حوالے سے ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت کسی مقتول یا مقتولہ کے رشتہ دار سزائے موت کی صورت میں قاتل کو معاف تو کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی مجرم کو لازمی طور پر عمر قید کی سزا بھگتنا ہو گی۔