1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’غنی کا غصہ قابلِ فہم ہے‘، افغان وفد پاکستان میں

عاصمہ علی13 اگست 2015

افغان حکام کا ایک وفد افغان طالبان کے ساتھ تعطل کے شکار امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ اس وفد کی قیادت وزیرخارجہ صلاح الدین کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GF6y
Pakistans Premier Sharif mit afghanischem Präsidenten Ghani in Kabul
تصویر: Reuters/O. Sobhani

اس وفد میں قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر، قائم مقام وزیردفاع معصوم ستانکزئی اور انٹیلی جنس کے سربراہ رحمت اللہ بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سر تاج عزیز کا کہنا ہے کہ جمعرات کو افغان حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے پر تبادلہٴ خیال کیا جائے گا۔

افغان حکام کا یہ دورہ اُن حملوں کے چند روز بعد عمل میں آ رہا ہے، جن میں کابل میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں سے کچھ ہی پہلے افغان طالبان کی قیادت میں بھی تبدیلی آئی تھی اور ان حملوں نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ حملے طالبان کے نئے لیڈر ملا محمد اختر منصور کی جانب سے حکومت کے نام اس پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں کہ طالبان مسلح بغاوت میں کوئی کمی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

افغانستان میں تازہ پُر تشدد واقعات کے بعد افغان صدر اشرف غنی پاکستان پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف اپنی کارروائی تیز تر کر دے۔ افغانستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کے ان مراکز کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے، جہاں سے اُس طرح کے حملے ہوتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ اختتامِ ہفتہ پر دیکھنے میں آیا۔ دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ خود اس وقت مسلح بغاوت کا شکار ہے۔

پچھلے مہینے پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے پہلے دور کی میزبانی کی تھی۔ طالبان پچھلے تیرہ سال سے اپنی اُس حکومت کی بحالی کے لیے لڑ رہے ہیں جو کہ امریکی فوج کی مداخلت کے بعد ختم ہوگئی تھی۔

جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا، پاکستان کی پہلی کوشش یہی ہو گی کہ وہ مفاہمتی کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہاکہ ’اشرف غنی کا غصہ جائز ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ افغان وفد کے ساتھ مذاکرات کے دوران ان کی غلط فہمیاں دور کر سکیں‘۔ سرتاج عزیز نے کہا:’’افغانستان کے لوگ مایوس اور پریشان ہیں کیونکہ بم دھماکے اور امن مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘