1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غریب ممالک عالمی مالیاتی بحران سے زیادہ متاثر ہوئے، اقوام متحدہ

17 جولائی 2009

عالمی اقتصادی بحران کا سب سے زيادہ اثر دنيا کے غريب ترين ملکوں پر پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی کی کانفرنس جمعہ کے روز اپنی تازہ ترين رپورٹ شائع کی ہے۔

https://p.dw.com/p/IroL
عالمی مالیاتی بحران کے باعث غریب ملوکوں میں بھوک میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: AP

اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنيا کے سب سے کم ترقی يافتہ 49 ممالک فی الحال، اپنی اقتصادی ترقی ميں لمبی مدت تک باقی رہنے والا اضافہ پيدا کرنے اور اس طرح اپنے ملکوں ميں غربت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہيں ہيں۔

دنيا کے غریب ترین ملکوں ميں 2002 سے لے کر 2008 تک اقتصادی ترقی کی شرح بہت اچھی تھی۔ ليکن اس کی وجہ يہ تھی کہ خام مال کی قيمتيں زيادہ تھيں،ترقياتی امداد مناسب سطح پر تھی اور ان ملکوں کے بہت سے قرضے معاف کرديئے گئے تھے۔ يہ، اقوام متحدہ کی تجارت وترقی کی کانفرنسUNCTAD کا تجزيہ ہے۔

تاہم اس وقت جو اقتصادی بحران جاری ہے، اس کی وجہ سے صنعتی ممالک ترقی پذير ملکوں ميں سرمايہ کاری ميں مسلسل کمی کررہے ہيں۔ براہ راست سرمايہ کاری ميں بہت زيادہ کمی ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ سب سے کم ترقی يافتہ ملکوں کو بمشکل تمام ہی قرضے مل رہے ہيں، جن کی مدد سے وہ اپنے منصوبوں ميں سرمايہ کاری کرسکيں۔ يہی نہيں، ان کے غير ممالک ميں مقيم شہری بھی اپنے آبائی ملکوں ميں رہنے والے عزيزوں کو کم پيسے بھيج رہے ہيں۔ افريقی ممالک، ايشيائی ملکوں کے مقابلے ميں اقتصادی بحران سے،زيادہ متاثر ہو رہے ہيں۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ ايشيائی ممالک کے اقتصادی ڈھانچوں ميں زيادہ تنوع ہے۔

Indien, Kinder spielen im Slum
غریب ممالک میں سرکاری اداروں میں کرپشن خرابی کی ایک بڑی وجہ ہےتصویر: AP

اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی کی کانفرنس کے مطابق غريب ملکوں ميں سرکاری محکموں اور انتظاميہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی شديد ضرورت ہے۔ اس رپورٹ ميں تنبيہہ کی گئی ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کيا جانا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنايا جانا چاہئے۔ ليکن يہ خيال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان ملکوں پر ايک ساتھ بہت زيادہ اصلاحات کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔

اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ خود اپنے آپ کو درست کرنے اور ضابطوں کے اندر رکھنے والی اقتصاديت کا جو شاندار تصور پايا جاتا تھا، وہ اقتصادی بحران کے ملبے ميں دفن ہو چکا ہے ۔اس نے ايک توسيع پسندانہ اقتصادی اور مالياتی پاليسی کی سفارش کی ہے۔ اس کا مطلب اس پاليسی سے انحراف ہوگا جس کا مشورہ اب تک بين الاقوامی مالياتی فنڈ ديتا رہا تھا اور جس کا ہدف افراط زر اور قرضوں ميں کمی تھا۔

اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی کی کانفرنس کا غريب اور ترقی پذير ممالک کو يہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی زراعت ميں زيادہ پيسہ لگائيں۔ اس طرح بھوک اور مستقبل ميں غذا ميں کمی کے بحرانوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے ۔ اگراس وقت زراعت ميں کم سرمايہ لگايا جائے گا، تو اس کے نتيجے ميں مستقبل ميں زرعی پيداوار کم ہو جائے گی ۔

رپورٹ : Pascal Lechler/ شہاب احمد صدیقی

ادارت : عاطف توقیر