غذائی قلت کا شکار نیپالی علاقہ
29 اپریل 2011دھنا کماری کا تعلق نیپال کے ضلع ڈوپلا کے ایک گاؤں جھوپال سے ہے۔ یہ علاقہ سطح مرتفع تبت کے کنارے پر قریب تین ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ نیپال کے گاؤں جھوپال کو انتہائی سخت حالات اور رسائی کے لیے مشکل ترین خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق ادارے ’ورلڈ فوڈ پروگرام‘ کی جانب سے خوارک کی کمی کے شکار سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
خشک سالی سے متاثر بنجر ڈوپلا میں سال میں صرف ایک بار اتنی فصل ہوتی ہے جو وہاں کے لوگوں کی تین سے چھ ماہ تک خوارک کی ضروریات پوری کر سکے۔ نیپالی حکومت کے مطابق اس خطے میں 2009 کی خشک سالی کے بعد ہونے والی خوراک کی کمی حالیہ برسوں میں تین گنا سے زائد ہو گئی ہے۔
دھناکماری بتاتی ہیں کہ وہ لوگ جو فصل اگاتے ہیں اس سے صرف چھ ماہ تک کی خوراک حاصل ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم فوڈ کارپوریشن سے چاول خریدتے ہیں اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے لیے چاول کے بدلے مزدوری کرتے ہیں ۔‘‘
ورلڈ فوڈ پروگرام، سڑکیں اور نہریں کھودنے کے عوض ہر خاندان کو چار کلو چاول ایک دن کی مزدوری کے طور پر دیتا ہے۔ تاہم ان کے ایسے منصوبے سارا سال نہیں کام کرتے۔ دھناکماری کے مطابق ان کے علاقے میں خوراک کی قلت ایک طویل عرصے سے ہے۔
گو کہ ماہ جون میں ہونے والی بارشیں یہاں کے کھیتوں کے لیے رحمت بن کے برستی ہیں تاہم اس کے باعث خوراک کی ترسیل کے کام میں شدید رکاوٹ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں سے قابل استعمال روڈ تک رسائی کے لیے یا تو چار دن کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے یا پھر صرف فضائی ذریعے سے ہی یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ بارش کے پانی سے راستے کیچڑ سے بھر جاتے ہیں جس سے یہ لوگوں یا اشیائے خوراک کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے خچروں کے لیے ناقابل استعمال ہوجاتے ہیں جبکہ جہازوں کے اترنے کے لیے موزوں قطعہ زمین بھی یہاں اترنے اور پرواز کے قابل نہیں رہتا۔ ان وجوہات کی وجہ سے اکثر خوراک فراہم کرنے والے حکومتی اداروں کی جانب سے خوراک کی ترسیل مشکل ہو جاتی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں حکومت کی جانب سے اس خطے میں جہازوں کے ذریعے چاول کی ترسیل کی جاتی رہی ہے۔ تاہم ان اقدامات کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے کہ اس کے باعث اب لوگ صرف حکومتی امداد پر انخصار کرنے لگے ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک