عید الاضحیٰ اداسی میں بدل گئی
گزشتہ پچیس برسوں میں حج کے دوران رونما ہونے والے اس سب سے ہلاکت خیز سانحے میں سات سو سے زائد حجاج ہلاک ہوئے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے حج انتظامات میں سلامتی امور پر دوبارہ غور کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عید کے موقع پر دکھی افراد
مسلمانوں کے مقدس ترین مقام مکہ سے کچھ دور ہی منیٰ میں پیش آنے والے اس اندوہناک حادثے میں717 افراد کی موت کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ جمعرات چوبیس ستمبر کے روز رونما ہونے والے اس سانحے کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کی خوشیاں غم میں تبدیل ہو گئیں۔
ہسپتالوں میں ہنگامی صورتحال
سعودی حکام نے بتایا ہے کہ بھگدڑ کے اس واقعے میں 863 افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس حادثے کے فوری بعد منیٰ کے قریبی ہسپتالوں کے علاوہ مکہ کے طبی مراکز میں بھی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔
ہلاکت خیز واقعہ
گزشتہ پچیس برسوں کے دوران حج کے موقع پر رونما ہونے والا یہ سب سے ہلاکت خیز سانحہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھگدڑ اس وقت مچی، جب حجاج بڑے شیطان کو کنکریاں مار رہے تھے۔
بزرگ حجاج بھی متاثر
اس حادثے کی زد میں بزرگ عازمین حج بھی آئے۔ بتایا گیا ہے کہ جب اچانک حاجیوں میں بھگدڑ مچی تو لوگ ایک دوسرے پر چڑھ کر سانس لینے کی کوشش میں لگ گئے، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔
عید کی خوشیاں غم میں بدل گئیں
مناسک حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنا، حج کا سب سے اہم آخری فریضہ ہے۔ منیٰ میں اس حادثے کی وجہ سے دیگر مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی اداسی پھیل گئی۔
امدادی ٹیموں کی فوری کارروائیاں
اس حادثے کے فوری بعد امدادی ٹیمیں متاثرہ مقامات پر پہنچ گئیں۔ زخمی ہونے والے افراد کا علاج موقع پر بھی کیا گیا، جب کہ شدید زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔
نقل و حرکت کی بےانتظامی
سعودی حکام نے ابتدائی تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ یہ حادثہ اس وقت رونما ہوا، جب دو مختلف راستوں سے آنے والے حجاج کی ایک بڑی تعداد اس مقام پر جمع ہوئی جہاں وہ راستے ملتے تھے۔
تحقیقاتی عمل جاری
بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کہ وجہ سے ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ لقمہ اجل بننے والے حاجیوں کا تعلق کن کن ممالک سے تھا۔ ریاض حکومت تحقیقات کر رہی ہے اور امکان ہے کہ جلد ہی مارے جانے والے حاجیوں کی قومیتوں کے بارے میں سرکاری اعلان کر دیا جائے گا۔
شاہ سلمان بھی افسردہ
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے حج انتظامات سے متعلق سلامتی امور پر دوبارہ غور کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ سینکڑوں حاجیوں کی موت پر شاہ سلمان نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حج کے دوران حجاج کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے انتظامات میں بہتری کی ضرورت ہے۔
ایران کی طرف سے تنقید
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ریاض حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس حادثے اور بدانتظامی کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس حادثے میں ایران کے سو سے زائد باشندے مارے گئے جبکہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق الجزائر سے تھا۔
پاکستان کے بھی چھ حاجیوں کی موت
ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ اس حادثے میں پاکستان کے چھ شہری مارے گئے۔ بھارت کے چودہ باشندوں کی ہلاکت کی خبر ہے جبکہ ترکی کے چار شہری لقمہ اجل بنے۔
مناسک حج کا اہم فریضہ
مناسک حج میں شیطان کو علامتی طور پر کنکریاں مارنا ایک اہم فریضہ ہے۔ منیٰ میں عازمین حج وہاں تین مختلف شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں، جس کے بعد وہ مکہ کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
گرمی اور تھکن بھی حادثے کی وجہ بنی
بھگدڑ جمعرات کے دن صبح نو بجے مچنا شروع ہوئی۔ حکام کے مطابق شیطان کو کنکریاں مارنے والے عازمین شدید تھکن کا شکار تھے جبکہ شدید گرمی بھی ان میں پریشانی کا سبب بنی۔ جمعرات کے دن منیٰ میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا ہوا تھا۔
دو ہفتوں میں دوسرا سانحہ
سعودی عرب میں بھگدڑ کا یہ واقعہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دوسرا سانحہ ہے۔ اس سے قبل مکہ میں قائم مسجدالحرام میں تعمیراتی مقاصد کے لیے نصب کردہ ایک کرین گرنے کی وجہ سے بھی 109 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
سب سے بڑا مذہبی اجتماع
حج مسلمانوں کے لیے ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ گزشتہ برس دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے قریب تین ملین مسلمانوں نے یہ فریضہ ادا کیا تھا۔ حج دنیا بھر کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے۔
حجاج کی تعداد مسلسل بڑھتی ہوئی
حج اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ سعودی حکام کے مطابق 1921ء میں حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد 57 ہزار تھی جو گزشتہ تین برسوں کے دوران بڑھ کر بتیس لاکھ سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔