1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'عظمٰی نے میرے خلاف بیان بھارتی ہائی کمیشن کے دباؤ پر دیا‘

صائمہ حیدر
8 مئی 2017

بھارتی خاتون شہری ڈاکٹر عظمٰی کے شوہر طاہر علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم بھارتی سفارت خانے کی جانب سے  اُن کے خلاف بیان دینے کے لیے اُن  کی بیوی پر دباؤ ڈالا  گیا ہے۔ 

https://p.dw.com/p/2ccSu
Screenshot Twitter - Dr Uzma
تصویر: Twitter/TimesofIslamabad

یکم مئی کو براستہ واہگہ پاکستان آنے والی بھارتی خاتون ڈاکٹر عظمیٰ کی پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع بونیر کے رہائشی طاہر سے شادی کا معاملہ اس وقت پیچیدہ صورتِ حال اختیار کر گیا جب وہ مبینہ طور پر پانچ مئی کو اپنے شوہر طاہر علی کے ساتھ اسلام آباد میں قائم بھارتی سفارت خانے ویزا حاصل کرنے کی غرض سے گئیں لیکن واپس نہیں آئیں۔

اس معاملے پر نظر رکھنے والی پاکستانی صحافی مونا خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُن کے پاس موجود اطلاعات کے مطابق جب شام سات بجے تک عظمٰی سفارت خانے سے باہر نہیں آئیں تو اُن کے شوہر نے بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا اور اپنی بیوی کی بابت استفسار کیا جس پر اُنہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر عظمٰی ہائی کمیشن کی عمارت میں سِرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عظمٰی کے شوہر طاہر علی نے اس معاملے پر ڈی ڈبلیو سے بات کی اور اپنا موقف بیان کیا۔ علی نے بتایا کہ جب وہ اپنی بیوی کے ہمراہ بونیر سے اسلام آباد کے لیے بھارت کے ویزے کے لیے درخواست دینے روانہ ہوئے تھے تو اُن کی بیوی کا رویہ  بہت اچھا اور نارمل تھا۔

 علی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ڈاکٹر عظمٰی پر بھارتی سفارت خانے کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے خلاف بیان دیں۔ طاہر علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پانچ مئی کو عظمٰی کے بھارتی سفارت خانے میں غائب ہونے کے بعد سفارت خانے کے عملے سے لگاتار درخواست کی کہ مجھے اُس سے بات کرنے کا موقع دیں۔ علی نے مزید کہا،’’مجھے بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے عظمٰی سے ملاقات کے لیے پیر سات مئی کو دن گیارہ بجے کا ٹائم دیا گیا تھا۔ مجھے بھارتی ایمبیسی کے عملے نے ویزا ریسیپشن پر یہ کہہ کر انتظار کرنے کو کہا کہ وہ مجھے عظمٰی سے ملوانے والے ہیں۔ لیکن بہت دیر تک انتظار کرنے پر بھی نہیں ملوایا۔ دوپہر تین بجے کے قریب مجھے بتایا گیا کہ میں عظمٰی سے نہیں مل سکتا۔‘‘ طاہر علی کا کہنا تھا کہ وہ ابھی سفارتخانے ہی میں تھے کہ عملے کے کچھ ارکان عظمٰی کو دوسرے گیٹ سے عدالت لے گئے اور اُن کے خلاف بیان دلوایا۔ طاہر علی کا موقف تھا کہ اُن کی بیوی اُن کے خلاف ایسا بیان نہیں دے سکتی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عظمٰی کی جانب سے آج اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ عظمٰی نے آج عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ طاہر اور اُس کے اہلِ خانہ نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر عظمٰی نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ شادی کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آئی تھیں لیکن  اُنہیں بندوق کی نوک پر شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔

خاتون صحافی مونا خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹر عظمٰی کے اب تک کے بیانات میں تضاد ہے۔ مونا خان کے بقول پہلے تو عظمیٰ نے صرف یہ کہا تھا کہ اسے طاہر علی کی پہلی شادی اور چار بچوں کا علم نہیں تھا لیکن بعد میں اُس نے میڈیا کے سامنے کہا کہ اُس کا کوئی افئیر بھی طاہر علی کے ساتھ کبھی نہیں رہا۔

مونا خان نے بتایا کہ آج اس معاملے میں نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عظمٰی کے نکاح نامے اور دیگر دستاویزات پر اُس کے والد کا نام محمد نوشاد لکھا ہے لیکن آج مجسٹریٹ کی عدالت میں جو بیان دیا گیا ہے اُس میں والد کا نام صغیر احمد تحریر کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کو آگاہ کیا ہے کہ 20 سالہ بھارتی شہری عظمٰی خود بھارتی سفارت خانے آئی تھیں جہاں انہوں نے پاکستانی شہری طاہر علی سے شادی کا بتایا اور کہا کہ وہ اپنے ملک بھارت واپس جانا چاہتی ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ طاہر پہلے سے شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہے۔