1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ملکوں کی احتجاجی تحریکیں، اثرات سعودی عرب پر بھی

23 دسمبر 2011

عرب ملکوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے اثرات اب سعودی عرب میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ریاض حکومت صرف چند معمولی اصلاحات کرتے ہوئے نوجوان طبقے کو مطمئن کرنا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/13YDj
تصویر: picture-alliance/dpa

سعودی عرب کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے اور ریاض حکومت کی کوشش ہے کہ کسی بھی احتجاجی تحریک کے امکانات ختم کرنے کے لیے پہلے نوجوان طبقے کو مطمئن کیا جائے۔ ملک میں غیر ملکی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی کو ایک طویل عرصے سے مقامی افراد کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اب سعودی نوجوانوں کو کس طرح ملازمتیں دی جائیں گی ؟ اس بارے میں سعودی دارالحکومت ریاض میں جرمن صنعت کاروں کے نمائندے آندریاس ہیرگن روئتھر کا کہنا ہے،’’ سعودی عرب کی آبادی تقریباً 28 ملین نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس میں سے سات ملین افراد غیر ملکی ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت 31 فیصد سعودی نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو سعودی نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ تعمیر کے شعبے میں سعودی نوجوانوں کا کوٹہ پانچ، صنعتوں اور پیداواری شعبے میں 15، سروس سیکٹر میں 30 جبکہ بینکوں اور انشورنس کمپنیوں میں 50 فیصد رکھا گیا ہے۔‘‘

Asiatische Arbeiter beladen Schiffe im Hafen von Dubai
سعودی عرب کی آبادی تقریباً 28 ملین نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس میں سے سات ملین افراد غیر ملکی ہیںتصویر: dpa

متحدہ عرب امارات میں ایک جرمن فاؤنڈیشن Konrad-Adenauer-Stiftung کے علاقائی سربراہ تھوماس بیرنگر کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں میں بحرین کے علاوہ کہیں بھی بڑے سماجی مسائل موجود نہیں ہیں لیکن یہاں کی نئی نوجوان نسل اپنے مسائل واضح طور پر منظر عام پر لانے کی ہمت رکھتی ہے اور یہی چیز حکمرانوں کو خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔

بیرنگر کے مطابق سعودی حکومت ملک میں بڑی اصلاحات اور جمہوری نظام کے قیام کے لیے تیار نظر نہیں آتی جبکہ یہ اصلاحات انتہائی ضروری ہیں، ’’اگر سعودی حکام ملک کو مستقل طور پر مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ اگر یہ اصلاحات نہیں کی جاتیں یا پھر ان میں دیر کی جاتی ہے تو خلیجی ریاستوں کا استحکام واقعی خطرے میں ہو گا۔

بیرنگر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے زیادہ تر شہریوں کے لیے پیسہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ اقتدار کا ہے۔ عشروں سے صرف ایک ہی خاندان برسر اقتدار ہے۔ شاہ عبداللہ کی صحت اب اکثر ٹھیک نہیں رہتی اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان کے بعد یہ منصب سنبھالنے والا حکمران اصلاحات کر پائے گا بھی کہ نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل میں صرف پیسہ ہی اس ملک کو مستحکم نہیں رکھ پائے گا بلکہ اقتدار میں عوامی شراکت کا بھی ایک اہم کردار ہو گا اور عوامی شراکت کے لیے سعودی عرب میں ابھی کوئی بھی تیار نظر نہیں آتا۔

رپورٹ: تھوماس کوہلمن / امتیاز احمد

ادارت: امجد علی