عراق: کردستان میں انتخابات کے لیے رائے شماری
26 جولائی 2009آج انتخابات سے قبل ملکی الیکشن کمیشن نے توقع ظاہر کی کہ پچیس لاکھ سے زائد رجسٹرڈ کرد باشندے اس رائے شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔
ان انتخابات میں توقع کی جا رہی ہے کہ سابق جنگجو صدر مسعود بارزانی اپنے عہدے پر برقرار رہ پائیں گے۔ بارزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی اور عراقی صدر جلال طالبانی کی پیٹریوٹک یونین آف کردستان کئی دہائیوں سے کردستان کی سیاست پر حاوی رہی ہیں۔ بارزانی اور صدر طالبانی کی جماعتوں نے مختلف چھوٹی جماعتوں کے تئیس اتحادوں کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ سن دو ہزار پانچ میں ہوئے انتخابات کے برعکس، جس میں کردستانی شہریوں نے پارلیمان کا انتخاب کیا تھا، اس بار شہری بالواسطہ صدر کا انتخاب کریں گے۔
انتخابات کے لیے رائے شماری مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے ختم ہوئی جس کے بعد بغداد میں ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے۔ سرکاری نتائج دو سے تین روز تک آنے کی توقع ہے۔
واضح رہے کہ شمالی کردستان اور عراق کی وفاقی حکومت کے درمیان سرحد اور تیل کی دولت کی تقسیم جیسے موضوعات پر تنازعات پائے جاتے ہیں۔ مبصرین کی رائے میں تیل سے مالا مال کرکوک اور دیگر متنازعہ علاقے انتخابات کے بعد بھی بغداد حکومت اور کردستان کے درمیان کشیدگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ بغداد میں عرب اکثریتی حکومت قائم ہے جب کہ کرد عرصے سے وسیع تر خود مختاری کے علاوہ خاص طور پر تیل کی دولت میں اپنے حصّے کے حوالے سے مطالبات کرتے رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل اسی تنازعے کی وجہ سے عراقی پارلیمان توانائی سے متعلق ایک اہم قانون کو منظور نہیں کر سکی تھی جس کے ذریعے تیل کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی تھی۔
کردستانی حکومت نے ہفتہ کے روز ہوئے انتخابات کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ کردوں اور وفاقی حکومت کے درمیان تنازعات انتخابی نتائج آنے کے بعد حل کرلیے جائیں گے اور یہ کہ کرد اس حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیِّار ہیں۔ دوسری جانب کردستان کی صوبائی حکومت کے ناقدین حکومت پر وسیع تر سرکاری بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ عراق کے سابق صدر صدّام حسین کے دور میں کردوں کے خلاف فوجی طاقت استعمال کی جاتی رہی ہے۔ امریکہ کے عراق پر قبضے کے بعد صدّام حسین پر چلنے والے مقدمے میں ان پر بنیادی الزام کردوں کی نسل کشی کا ہی تھا جس پر ان کو بعد ازاں پھانسی دے دی گئی۔
دوسری جانب شمالی کردستان میں کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے آزاد کرد ریاست کے لیے مسلّح جدوجہد بھی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے وہ ترکی میں موجود کرد علاقوں کو بھی آزاد کرد ریاست میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ ترک حکومت پی کے کے کے خلاف وقتا فوقتاً فوجی کارروائی کرتی رہتی ہے۔ ان انتخابات کو ترک حکومت کے علاوہ دیگر علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں بھی بغور دیکھ رہی ہیں۔