1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جنگی بے بسی

J.Borchers/I.Ahmad2 جولائی 2008

افغانستان میں امریکی فوج کوجتنا جانی نقصان آج برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ عراق میں بھی صورتحال امریکی فوج کے قابو میں نہیں ہے۔ امریکہ کو اب یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ کس محاذ پر لڑنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/EV64
عراق میں امریکہ کا اپنی فوج کو داخل کرنا تو آسان تھا مگر وہاں سے فوج کو واپس بلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہےتصویر: AP

اس لئے کہ افغانستاں میں اپنی سات سالہ اورعراق میں پانچ سالہ جنگ کے دوران امریکی فوج ان دونوں ہی ملکوں میں ہر وہ حربہ استعمال کر چکی ہے جووہ جانتی ہے۔

ان ملکوں میں امریکی فوج اب اپنے سپاہیوں کی لاشیں گنتے رہنے پر مجبور ہے۔ صرف جون کے مہینے میں عراق میں 31 اورافغانستان میں 45 اتحادی فوجی ہلاک ہوئے حالا نکہ امریکی مئوقف کے مطا بق عراق میں پر تشدد کارروائیوں میں دراصل کمی ہوئی ہے۔ لیکن کئی فوجی ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اگر پر تشدد واقعات میں کمی ہوئی ہے تو فوجی ہلاکتوں میں اتنا اضافہ کیوں ؟

امریکہ میں Brookings Institute کے عراقی امور کے ایک ماہرMichael O'Hanlon کے مطابق عراق میں نظر آنے والی پیش رفت حیرت انگیز ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب سے امریکہ نے عراق میں اپنے فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے، وہاں عام شہریوں پر پر تشدد حملوں میں قریب 80 فیصد تک کمی آچکی ہے۔ یہ بات امریکی فوج، عراقی حکومت اور عراق میں صورت حال پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار تحقیقی اداروں سمیت سبھی حلقوں کے اعدادوشمار سے ثابت ہوجاتی ہے۔

عراق سے امریکہ کی جلد از جلد فوجی واپسی کے مطالبات بظاہر کم ہو گئے ہیں اور وہاں آئے روز کے ہلاکت خیز واقعات کی ذرائع ابلاغ میں نظر آنے والی ہولناک تصویریں بھی اب اتنی زیادہ نہیں ہوتیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عراق اور افغانستان کی جنگ کے حوالے سے سنائی دینے والے بیانات کو دیکھا جائے تو یہ بھی سچ ہے کہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو سولہ ماہ کے اندر اندر عراق سے امریکی فوج واپس بلا لی جائے گی۔ لیکن کیا اوباما واقعی ایسا کربھی سکیں گے؟

Michael O'Hanlon کا کہنا ہے کہ اتنا تیز رفتار فوجی انخلاء نہ صرف بہت بڑی غلطی ہو گی بلکہ یوں سال رواں کے اوائل سے آج تک وہاں حاصل ہونے والی کامیابیاں بھی رائیگاں جائیں گی ۔ اس کے برعکس باراک اوباما اپنے اس نقطہ نظر میں قدرے حق بجانب ہیں کہ افغانستاں میں مزید امریکی فوجی متعین کئے جانا چاہیئں۔

Afghanistan Soldaten des 373 Batalions der Bundeswehr patroullieren in der afghanischen Hauptstadt Kabul
امریکی پالیسی ساز اس بات پر یک سو نہیں کہ افغانستان پر زیادہ توجہ دی جائے یا عراق پرتصویر: AP

دوسری طرف امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کئی ماہ سے یہ تنبیہہ کر رہے ہیں کہ امریکہ نے تو اپنے مزید ساڑھے تین ہزار فوجی بھی افغانستان بھیج دیئے ہیں مگر وہاں اتحادی دستوں کی مجموعی تعداد میں اب تک جو بھی اضافہ کیاگیا ہے وہ کافی نہیں ہے۔

افغانستان میں اضا فی فوجی دستے صرف اسی صورت متعین کئے جا سکتے ہیں جب عراق سے اتحادی دستے جزوی طور پر واپس بھی بلا ئے جائیں۔ اسی لئے امریکہ کواپنی عسکری صلاحیتوں کا بہت محتاط استعمال کرنا ہوگا۔ خاص طور پر اس بناء پر بھی کہ واشنگٹن عراق اور افغانستان میں اب تک بہت سے جنگی حربے استعمال کر چکا ہے۔ بات اگر بعد از جنگ تعمیر نو کی کی جائے تو امریکہ کے پاس ایسے ماہرین کی بھی کمی ہے جو جنگوں سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اور اقتصادی ترقیاتی عمل میں حصہ لے سکیں۔ اس بارے میں امریکی وزیردفاع گیٹس کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے انتہائی دور میں امریکہ کی ایجنسی برائے ترقی کے کارکنوں کی تعداد سولہ ہزار تھی جو بہت کم ہوکراب صرف تین ہزار رہ گئی ہے۔ آج امریکہ کے پاس ایسے بہت زیادہ ماہرین نہیں ہیں۔

انہی جملہ عوامل کے تناظر میں بہت سے ماہرین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جنگی بے بسی شدید تر ہوتی جارہی ہے۔