1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی تیل کی نیلامی

30 جون 2008

عراقی وزیر برائے تیل حسین الشاہ رستانی نے پیر کے روز عراق کی چھ آئل فیلڈز کو نیلام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مزکورہ نیلامی میں تیل کی بین الاقوامی کمپنیاں بھی شرکت کریں گی۔

https://p.dw.com/p/ETfv
جنوبی موصل میں واقع آئل ریفائنریتصویر: AP

عراقی وزیر نے یہ بھی کہا ہے کہ عراق کی قدرتی گیس کے زخائر کے لیے بھی مستقبل قریب میں نیلامی کروائی جائے گی۔


رمیلا، کرکک، زبیر، مغربی قرنا، بائی حسن اور میثن کی آئل فیلڈز کو امریکی حمایت یافتہ عراقی حکومت نے نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح مغربی ممالک کی طاقت ور تیل کمپنیاں تیل سے لبریز ان کوؤں پر اختیار حاصل کر پائیں گی جو کہ اب تک عراقی حکومت کے اختیار میں تھے۔

عراقی حکومت کے مطابق ابتدائی طور پر اکتالیس بین الاقوامی کمپنیوں کو اس نیلامی میں حصّہ اینے کا اہل قرار دیا گیا ہے مگر امکان یہی ہے کہ شیل، برٹش پیٹرولیم، ایکزون موبل اور ٹوٹال جیسی کمپنیوں کے ہوتے کسی اور کمپنی کے نیلامی میں جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مزکورہ کمپنیاں کئی ممالک کی مشترکہ دولت سے بھی زیادہ وسائل کی حامل ہیں اور اسی مناسبت سے اثرو رسوخ بھی رکھتی ہیں۔

Chevron Firmenlogo
بین الاقوامی تیل کمپنیاں کئ ممالک کے مشترکہ وسائل سےبھی زیادہ وسائل اور اثرورسوخ رکھتی ہیںتصویر: AP


مگر عراقی حکومت نے پیر کے روز جب نیلامی کی تفصیلات پیش کیں تو ان کے مطابق بین الاقوامی کمپنیوں کے کنٹرول میں آنے کے بعد عراقی تیل کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور یہ پیداوارایک عشاریہ پانچ ملین بیرلز یومیہ تک پہنچ جائے گی۔ یہ بات اس لیے بھی درست ہے کہ ان آئل فیلڈز کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور زیادہ سے زیادہ تیل نکالنے کے لیے جو زرائع درکار ہیں وہ بین الاقوامی تیل کمپنیوں کے ہی پاس ہیں۔


تیل کے کوؤں کی نیلامی اس سے قبل اس واسطے عمل میں نہیں آ سکی کہ عراق میں تشدّد کے واقعات نے حکومت کی تمام تر توجہ اپنی جانب مبذول کروائے رکھی۔ گزشتہ ایک برس میں عراق کی مجموعی صورتِ حال میں نسبتاً بہتری رونما ہوئی ہے او ر تشدّد کے واقعات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غالباً عراقی حکومت نے تیل کی نیلامی کا فیصلہ کیا ہے۔

US-Präsident George W. Bush bei den Truppen in Irak
امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں امریکی افواج کی جارحانہ حکمتّ عملی کے سبب عراق میں پر تشدّد واقعات میں کمی واقع ہوئی ہےتصویر: AP


اب تک اس نیلامی کے ممکن نہ ہونے کی ایک وجہ کردستان کی علاقائی حکومت اور بغداد میں وفاقی حکومت کے درمیان تیل کے کانٹریکٹس اور دولت کی تقسیم کے بارے میں تنازعہ بھی تھی۔ اب وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مناسب قانون نہ ہونے کی صورت میں وہ سن دوہزار تین میں امریکی قبضے سے قبل ایک قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے کمپنیوں کے ساتھ قلیل و طویل مدت معاہدے کرے گی۔

Schiitischer Geistlicher Muqtada al-Sadr
شیعہ عسکری رہنما مقتدہ الصدر عراق کی خود مختاری کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںتصویر: AP


بظاہر عراقی تیل کی نیلامی کا معاملہ اتنا پیچیدہ نظر نہیں آتا مگر سیاسی اور معاشی تجزیہ نگار اس بات کی طرف امریکی قبضے کے وقت سے اشارہ کر رہے ہیں کہ امریکہ کے عراق پر قبضے کی ایک بڑی وجہ عر اقی تیل پر قبضہ ہی تھی اور تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلامی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے نام پر جو مزاحمت عراق میں جاری ہے اس کی ایک بڑی وجہ بھی مختلف گروہوں کی تیل کی دولت پر قبضے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت بھی ان شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہو رہی ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تیل کی دیو قامت کمپنیوں کی آمد کے ساتھ یہ مزاحمت کیا رخ اختیار کرتی ہے۔