1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عدالت کا فیصلہ: اسرائیلی ناراض، فلسطینی خوش

31 دسمبر 2009

اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ یروشلم اور تل ابیب کو ملانے والی ایک مرکزی شاہراہ فلسطینی ٹریفک کے لئے بھی کھول دی جائے۔ اِس طرح سپریم کورٹ نے فلسطینی شہریوں کی ایک درخواست منظور کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/LHm3
تصویر: AP

اسرائیلی موٹر وے کی طرح کی شاہراہ نمبر 443 مودیعین اور یروشلم کو آپس میں ملاتی ہے اور اِس کا آدھا حصہ مقبوضہ مغربی کنارے سے ہو کر گذرتا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق فلسطینیوں کو بھی اِس شاہراہ کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے حکومت کو پانچ مہینے کا وقت دیا ہے اور کہا ہے کہ اِس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے تمام تر کوششیں بروئےکار لائی جائیں۔

فلسطینیوں کی دوسری انتفاضہ تحریک کے آغاز پر متعدد دہشت پسندانہ حملوں کے بعد، جن میں اِس شاہراہ پر پانچ اسرائیلی شہری مارے گئے، فوج نے فلسطینی دیہات سے اِس شاہراہ کو آنے والی رابطہ سڑکیں ٹریفک کے لئے بند کر دی تھیں۔

Der große Zaun
اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے تعمیر کی گئی دیوارتصویر: AP

اسرائیلی کار ڈرائیوروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی سپریم کورٹ کے فیصلے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ایک شخص کا کہنا تھا:’’اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے اِس فیصلے سے اسرائیلی شہریوں پر حملوں کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اب یہ شاہراہ پھر سے خون میں نہائے گی اور کوئی شخص بھی اِسے مزید استعمال نہیں کرے گا۔ ایک اور اسرائیلی کار ڈارائیور نے کہا:’’ویسے تو مجھے اِس پرکوئی اعتراض نہیں ہے کہ فلسطینی بھی اِس شاہراہ پر سفر کریں لیکن اگر وہ میرے اور میرے بچوں کے لئے خطرہ بنتے ہیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے گھر پر رہیں۔‘‘

عدالتِ عظمےٰ کے اِس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں دائیں بازو کے متعدد اسرائیلی سیاستدان بھی شامل ہیں۔ نیشنل یونین کے پارلیمانی رکن یاکوو کاٹس نے کہا کہ اِس سے اسرائیلی شہریوں کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی:’’اِس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ ایک ایسی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے، جو اُس کے دائرہء اختیار میں نہیں آتی۔ جیوری کی قیادت کرنے والی خاتون جج بینِش کو کم از کم یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ اِس فیصلے کے شہریوں پر مرتب ہونے والے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔ وہ یہودیوں کو اِس بات پر مجبور نہیں کر سکتیں کہ وہ خود کو مرنے کے لئے، قتل ہونے کے لئے پیش کر دیں۔‘‘

Ramallah , Palästina Strassenszene
فلسطینیوں کے زیرِ انتظام علاقے میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہےتصویر: DW/ Diana Hodali

شاہراہ نمبر 443 جزوی طور پر امریکہ کے فراہم کردہ مالی وسائل سے بنائی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام نے اِس سڑک کی تعمیر کے لئے فلسطینیوں کو اُن کی زمینوں سے بے دخل کیا تھا لیکن ساتھ ہی تب یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ یہ سڑک فلسطینیوں کے بھی کام آئے گی۔

حقوقِ انسانی کی علمبردار اسرائیلی تنظیم بیت سیلیم کے مطابق جب سن 2002ء میں فلسطینیوں پر اِس سڑک کے استعمال کی پابندی عاید کی گئی تو نہ تو اِس کے لئے کوئی قانونی بنیاد موجود تھی اور نہ ہی کوئی فوجی احکامات۔ اِس پس منظر میں بائیں بازو کی میریٹس پارٹی کے سربراہ خائم اورون نے عدالتی فیصلے کو سراہا ہے:’’اسرائیلی اِس وہم میں مبتلا ہیں کہ وہ یہ قبضہ جاری رکھ سکتے ہیں، نسلی امتیاز روا رکھنے والی ایک ریاست بنے بغیر۔ اب لیکن کوئی آیا ہے، اور یہ کوئی غیر ملکی عنصر نہیں بلکہ ہماری اپنی سپریم کورٹ ہے، جو کہہ رہی ہے کہ یہ نہیں چلے گا۔‘‘

جہاں تک یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کا معاملہ ہے، اسرائیلی حکومت نے دَس مہینے تک کے لئے اِس حوالے سے تمام تر سرگرمیاں معطل کرنےکا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم بدھ کے روز اِس اعلان کی پروا نہ کرتے ہوئے وَزارتِ دفاع نے یہ بیان جاری کیا کہ مغربی کنارے کی یہودی بستی کِریات نیتافِیم میں نئے رہائشی مکانات کی تعمیر منظور کر لی گئی ہے۔

رپورٹ: کلیمینز ویرنکوٹے (تل ابیب)/ امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق