1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ مذاکرات: حکومت پاکستان کی بھی تردید

12 دسمبر 2011

پاکستانی حکومت نے مقامی طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کی تردید کی ہے۔ وزیر اعظم یوسف گیلانی اور وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہےکہ طالبان کے ساتھ کوئی امن مذاکرات نہیں ہو رہے۔

https://p.dw.com/p/13RBn
وزیر اعظم یوسف گیلانیتصویر: Abdul Sabooh

پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تردید ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے جب تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر مولوی فقیر محمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے نہ صرف حکومت پاکستان سے امن مذاکرات جاری ہیں بلکہ حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر 145 طالبان عسکریت پسندوں کو رہا بھی کر دیا ہے۔

Pakistan Innenminister Rehman Malik
وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: Abdul Sabooh

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے تو در پردہ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسی ہے کہ سب سے پہلے مذاکرات کیے جائیں پھر ترقیاتی کام اور آخر میں ’ڈیٹیرنس‘ کی پالیسی اپنائی جائے۔

پاکستانی وزیراعظم نے کہا، ’’ہماری پالیسی کا حصہ ہے کہ اگر کوئی تشدد نہیں کرتا اور تشدد کی مذمت کرتا ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ کے سامنے جا کر ہتھیار پھینک دیتا ہے، اور وہ کہتا ہے کہ وہ آئندہ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرے گا، تو پھر وہ مرکزی دھارے میں آ جائے گا۔ لیکن عسکریت پسندوں سے ہماری کوئی بات چیت نہیں چل رہی۔‘‘

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Panzerfaust
تصویر: picture-alliance/dpa

مولوی فقیر محمد کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کے دوران145 طالبان کی مبینہ رہائی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا، ’’اس بارے میں وہی (مولوی فقیر محمد) ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں میرے پاس جو اطلاعات ہیں، وہ میں فوری طور پر نہیں بتا سکتا۔‘‘

دوسری جانب افغان امور کے ماہر سینئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان اور حکومت میں کچھ رابطے ہوئے ہیں لیکن باضابطہ بات چیت کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ جو مولوی فقیر کا دعویٰ ہے کہ 145 طالبان باجوڑ میں رہا کیے گئے ہیں، اس کو بھی تھوڑا سا شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا کہ پاکستانی حکومت اور ادارے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں ماضی میں خاصے حساس رہے ہیں اور ان کے لیے رہائی کا خفیہ طریقہ استعمال کرنا، میری نظر میں شاید اس طرح نہ ہوا ہو۔‘‘

طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان کے درمیان بھی اختلافات موجود ہیں۔ اسی لیے کوئی واضح حقائق سامنے نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم تین طالبان رہنماؤں نے بھی اپنے نائب امیر کے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بیان کی تردید کی ہے۔ طاہر خان نے کہا کہ ملا داد اللہ نامی کمانڈر، جس کا تعلق باجوڑ سے ہے، وہ اس وقت افغانستان میں ہے۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان اور مہمند ایجنسی کے مشہور طالبان کمانڈر عبدالولی عرف عمر خالد نے بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ طاہر خان کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بات چیت ابھی پختہ مرحلے میں داخل نہیں ہوئی۔

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Luftangriff
تصویر: picture-alliance/dpa

قبل ازیں اتوار کی شب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا تھا کہ اگر مولوی فقیر محمد حکومت سے مذاکرات چاہتے ہیں، تو انہیں پہاڑوں سے اتر کر ہتھیار پھینکنا ہوں گے، تو ہی حکومت مذاکرات کے امکان کا جائزہ لے گی۔

خیال رہے کہ مولوی فقیر محمد کی جانب سے اس دعوے کے بعد ایسی اطلاعات بھی آئی تھیں کہ امریکہ کو پاکستانی طالبان کے ساتھ حکومت کے مبینہ طور پر خفیہ مذاکرات پر تشویش لاحق ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں