طالبان کے خلاف اسلام آباد کی بے بسی
6 مئی 2009ایک طرف پاکستانی حکومت اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائیوں کے وعدے کر رہی ہے تو دوسری جانب ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں طالبان کا اثر ورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
آج پاکستانی صدرآصف علی زرداری اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کررہے ہیں۔ اس دوران امریکہ بڑی بے صبری کے ساتھ، پاکستان میں اعتدال پسند قوتوں کی زوال پذیری کا جائزہ لے رہا ہے۔
پاکستان کواس وقت شدید بحران کا سامنا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد حکومت، طالبان کے خلاف بے بس نظر آ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو پاکستان کی بااثر فوج، نہ ہی سایستدان اور نہ ہی کسی اور حلقے کے پاس طالبان کے مسئلے کا حل ہے۔
کبھی حکومت عسکریت پسندوں کے ساتھ نظام عدل کے نفاذ کا معاہدہ کرتی ہے تو کبھی ان پربمباری کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں زیادہ ترعام شہری ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ ابھی بھی بھارت کو اپنا اصل دشمن سمجھنے کی وجہ سے پاکستانی فوج شدت پسندی کا مقابلہ کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے سیاسی قائدین صورتحال پر توجہ دینے کے بجائے اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔
دوسری جانب منظم طالبان حکومتی اختیارات کی کمزروی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ طالبان کی کامیابی کا دارومدار کچھ حد تک دھمکیوں کی سیاست پر بھی ہے کیونکہ سوات میں طالبان نے اپنے مخالفین کویا تو قتل کر دیا ہے یا پھروہ علاقہ چھوڑنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو افراد طالبان کے طریقہ زندگی سے اختلاف رکھتے ہیں انہیں اپنی سلامتی کی فکر رکھنا لازمی ہے خاص طورپرمذہبی اقلیتیں، جیسا کہ سکھ، عیسائی اوردیگر۔
پاکستان کا اصل مسلئہ جہاد کا وہ نظریہ جوغیر رواداری اورمذہبی شدت پسندی ہے اور یہ گذشتہ کئی دہائیوں سے فروغ پا رہا ہے۔ خاص طور سے سابق آمر فوجی حکمران ضیاء الحق کے زمانےسے اس نظریے کو فوج کی جانب سے بھی پشت پناہی حاصل رہی ۔ ساتھ ہی اس معاملے میں امریکہ کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سوویت یونین کےخلاف لڑائی میں ان افراد کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔
پاکستان میں مغربی ممالک کےخلاف پائے جانے والے رویے کا تعلق سابق امریکی صدربش کی سیاست سے بھی ہے۔ اس دور میں پروان چڑھنے والا شدت پسندانہ رویہ اب اتنا پختہ ہو گیا ہےکہ پاکستانی عوام کوخوف و ڈر کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے۔
اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں ہے اور بیرونی قوتیں اسے حل نہیں کر سکتیں۔ امریکی حکومت پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کا کردار افغانستان کے حوالے سے اہم ہے۔ پاکستان اورافغانستان کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا ماضی سے موازنہ کیا جائے تو کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہو گا۔ ایک طرف دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو امداد دی جا رہی ہے تو دوسری جانب ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
واشنگٹن حکومت اس حوالے سے بھی کافی بے بس دکھائی دیتی ہے کیونکہ امریکہ جب بھی پاکستان پر دباؤ بڑھاتا ہےتو عسکریت پسند اسےاپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف پاکستان خود ہی اس مشکل سے باہر نکل سکتا ہے۔ اس کی واحد امید یہ کہ، پاکستان کو اب اس خطرے کی شدت کا اندازہ ہو چکا ہے اوراسلام آباد حکومت کو اس سلسلے میں فوری اقدامات کرنے چاہیں اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔