طالبان کی امن مذاکرات میں شمولیت، غنی پاکستان سے نا امید
25 اپریل 2016پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے گزشته ہفتے کابل میں ہوئے خونریز دہشت گردانه حملے میں درجنوں شہریوں کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کے بعد سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات ایک مرتبه پهر ابهرے ہوئے ہیں۔ منگل کو افغان وزارت داخله کے قریب ہوئے اس حملے کی ذمه داری حقانی گروپ نے قبول کی تهی، جسے پاکستانی خفیه ایجنسی آئی ایس آئی کے خاصا قریب خیال کیا جاتا ہے۔ کابل حکومت کے اجرائیوی رئیس عبدالله عبدالله نے حملے کے بعد اسلام آباد کا مجوزه دوره منسوخ کر ڈالا اور آج پهر صدر غنی نے بهی دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لیے اقدامات نه کرنے کا الزام دیا۔ انہوں نے متنبه کیا که اگر پاکستان ایسے ہی دہشت گردوں کی معاونت کرتا رہا تو اقوام متحده کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا جائے گا۔
غنی نے عوامی دباؤ کے پیش نظر آج پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکه اجلاس بلایا تها۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا که اب طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے وه پاکستان سے نا امید ہو چکے ہیں۔ اس اجلاس میں ولسی اور مشرانو جرگه کے ارکان کے بشمول، اراکین کابینه اور علماء بهی شریک تھے، غنی نے زور دے کر کہا که پاکستان کو اب کیے گئے وعدوں کے مطابق ’اچھے اور برے‘ طالبان کے فرق سے بالاتر ہوکر عسکریت پسندوں کے ٹهکانوں کو ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے طالبان عناصر، حقانی نیٹ ورک اور داعش کو افغانستان کا دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی سرکوبی کا اعلان کیا:’’ہم نے افغانستان میں تشدد کی اس لہر کو پر امن انداز سے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی ہے مگر ہم اپنے وطن اور عوام کے دفاع سے بهی کسی صورت غافل نہیں۔‘‘
افغان صدر کے بیان پر تبصره کرتے ہوئے عسکری امور کے ماہر جاوید کوہستانی نے کہا که غنی نے اب بهی کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا اور ان کی زیاده تر باتیں تکراری اور سطحی رہیں:’’خون خرابے کے اس مسلسل عمل اور حالیه دہشت گردانه حملے کے بعد لوگوں کو صدر محمد اشرف غنی سے دو ٹوک اور واضح موقف کی امید تهی مگر لگتا ہے که حکومتی حلقوں میں موجود بعض عناصر اور دیگر قوتوں کے زیر اثر وه ایک مرتبه پهر مضبوط موقف کا اعلان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
یاد رہے که صدر غنی نے 2014ء کے اواخر میں اقتدار سنبهالنے کے بعد پاکستان کی جانب غیر متوقع طور پر دوستی کا ہاتھ بڑهایا تها اور اسلام آباد سویلین حکومت کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کی فوجی قیادت کے ساته بهی ان کے رابطے خاصے فعال رہے۔ ملک کے اندر بعض حلقے، بالخصوص سابق صدر حامد کرزئی اور ان کی ٹیم غنی کو اسی قربت باعث مسلسل تنقید کا نشانه بهی بناتے رہتے ہیں۔
دفاعی اور اسٹریٹیجک امور کے ماہر جنرل غفار خان البته پارلیمان کے مشترکه اجلاس میں افغان صدر کے حالیه خطاب کو مثبت اور جامع قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے خان نے کہا که افغان سکیورٹی دستوں کی جانب عوام کی حمایت اور ہمدردی عروج پر ہے اور اب پارلیمان میں دوست اور دشمن کی اس واضح تفریق کے بعد لوگوں میں دہشت گردوں کے خلاف متحد ہونے کا جذبه مزید قوی ہو گا:’’کابل میں ہوئے حملے کے بعد مختلف صوبوں اور خود دارالحکومت کابل میں شہریوں نے کئی ملین سی سی خون عطیه کیا ہے، جو بے مثال ہے، یه اس بات کا ثبوت ہے که لوگ اب دہشت گردی سے اکتاچکے ہیں اور کسی صورت بهی گزشته کئی برسوں میں ہوئی ترقی کو طالبان کے ہاتھوں تباه ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
صدر غنی کو داخلی سطح پر دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے جو دوسری بڑی مشکل درپیش ہے، وه سکیورٹی سیکٹر میں اعلیٰ عہدوں پر افسران اور وزراء کی تعیناتی ہے۔ چیف ایگزیکیٹیو عبدالله عبدالله کے ساتھ صدر اشرف غنی کی قومی وحدت کی حکومت کو ایک برس سے زائد کا عرصه بیت چکا ہے تاہم اب بهی یه دونوں رہنما ایک مستقل وزیر دفاع کی تعیناتی کو ممکن نہیں بنا سکے ہیں۔ یه اہم وزارت اور اہم انٹیلی جنس اداره NDS نگران وزیر اور نگران سرپرست کے تحت کام کر رہے ہیں جبکه وزارت داخله کے لیے ایک سال میں دو وزراء کو آزمایا جا چکا ہے۔