طالبان کا بنیر سے انخلاء، مقامی طالبان کا گشت جاری
25 اپریل 2009مقامی پولیس افسر عبدالرشید خان نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اب بھی کم از کم دو سو کے قریب طالبان عسکریت پسند علاقے میں مسلّح گشت کر رہے ہیں۔
پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد سے سو کاومیٹر کے فاصلے پر واقعے بنیر پر طالبان کے کنٹرول پر مغربی اور نیٹو ممالک میں سخت تشویش پائی جا رہی تھی۔ پاکستان کے اندر اور بین الاقوامی برادری میں حکومت اور طالبان کے درمیان حال ہی میں کیے گئے نفاذ ِ شریعت سے متعلق معاہدے کے ناقدین نے اس معاہدے کو مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کی حکومت سے تعبیر کیا تھا۔
گزشتہ روز پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستانی حکومت اور فوج عسکریت پسندوں کو ملک کے اندر متوازی نظام قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جمعے ہی کے روز طالبان رہنما مولانا فضل اللہ نے بنیر میں موجود عسکریت پسندوں کو بنیر چھوڑ کر سوات واپس پہنچ جانے کا حکم دیا تھا۔
تاہم مقامی زرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اب بھی علاقے میں موجود ہیں۔ طالبان رہنماؤں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بنیر میں رہنے والے طالبان کو ان کا اپنا علاقہ چھوڑنے کے لیے کس طرح کہا جاسکتا ہے؟
سوات امن معاہدے کے بعد بنیر پر طالبان کے قبضے کو نظامِ عدل معاہدے کی خلاف ورزی سے بھی تعبیر کیا گیا تھا۔ معاہدے کے تحت طالبان کو ہتھیار پھینک کر حکومتِ پاکستان کی عمل داری کو قبول کرنا تھا تاہم سوات اور صوبہِ سرحد کے متعدد علاقوں میں عملاً مسلّح طالبان کی حکومت ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے سوات امن معاہدے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستانی حکومت ان علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاق کارروائی کیوں نہیں کر رہی ہے۔
پاکستان کی متعدد سیاسی جماعتیں بھی طالبان کی پیش رفت پر تشویش کا اظہار کررہی ہیں اور اس ضمن میں ایک کل جماعتی اجلاس بلانے کی بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔