طالبان رہنما مُلا اختر منصور کن کوششوں ميں ہیں؟
9 اپریل 2016طالبان کی ويب سائٹ پر حال ہی ميں جاری کردہ مُلا اختر منصور کے ايک پيغام ميں وہ اپنے حاميوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہيں، ’’ہميں مضبوط ارادوں اور اعتماد کے ساتھ اللہ کی راہ ميں دشمن کے خلاف فيصلہ کن حملوں کی تياری کرنی چاہيے۔‘‘ افغان عسکری ذرائع کے مطابق طالبان رہنما اِن دنوں باغی کمانڈروں کی حمايت حاصل کرنے اور اپنی قيادت کے مخالفين کو چُپ کرانے کے ليے کوششيں جاری رکھے ہوئے ہيں۔ کئی اہم کمانڈروں کو اعلیٰ پوزيشنوں کی پيشکش کی جا رہی ہے، تو باغی دھڑوں کے خلاف کارروائی بھی جاری ہے۔
مُلا اختر منصور کو سابق رہنما مُلا عمر کی موت کے بعد گزشتہ برس موسا گرما ميں افغان طالبان کا سربراہ مقرر کيا گيا تھا۔ تاہم کئی اہم طالبان کمانڈروں نے يہ الزامات لگاتے ہوئے کہ مُلا اختر منصور کا انتخاب جلد بازی ميں اور دھاندلی کے نتيجے ميں ہوا ہے، اُن کی قيادت تسليم کرنے سے انکار کر ديا تھا۔ داخلی سطح پر اختلافات اور لڑائی کے باوجود مُلا اختر منصور کی قيادت ميں افغان طالبان نے جنگ کے ميدان ميں گزشتہ برس کئی اہم پيش قدمياں کيں۔ اسٹريٹيجک اہميت کے حامل شہر قندوز پر پچھلے سال ستمبر ميں کچھ مدت کے ليے قبضہ اور پھر ہلمند ميں پيش قدمی اِس کی نماياں مثاليں ہيں۔
سياسی اور عسکری تجزيہ نگاروں کا ماننا ہے کہ رواں برس موسم خزاں ميں طالبان کے حملے پچھلے سال کے مقابلے ميں زيادہ شديد اور مقابلتاً بڑے پيمانے پر ہوں گے۔ ہلمند سے ايک ريٹائرڈ طالبان کمانڈر نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو بتايا ہے کہ مُلا اختر منصور افغان حکومت کے خلاف بڑی عسکری کارروائيوں کی تياريوں ميں ہيں۔ کوئٹہ شوریٰ کے ذرائع کے بقول وہ جنگ جوؤں کو چھ مختلف صوبوں ميں کارروائيوں کے ليے تيار کر رہے ہيں۔
دارالحکومت کابل ميں مقيم عسکری تجزيہ نگار عتيق اللہ امر خيل نے اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’بد انتظامی اور کرپشن کے شکار افغان دستوں کے ليے يہ سال کافی مشکل ثابت ہو گا۔‘‘ اُن کے بقول افغان طالبان کے حوصلے بلند ہيں جب کہ افغان فوجی اپنی بقا کے ليے لڑ رہے ہيں۔
اسی طرح امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں قائم تھنک ٹينک ’وُوڈرو وِلسن انٹرنيشنل سينٹر فار اسکالرز‘ سے وابستہ افغان امور کے ماہر مائيکل کوگِلمين کا کہنا ہےکہ اگر ملا منصور تمام اندرونی اختلافات اور تقسيم کا تفصيلی حل نکال ليتے ہيں، تو اِس کے نتيجے ميں طالبان اور بھی زيادہ خطرناک قوت کے طور پر ابھر سکتے ہيں۔ تاہم کوگِلمين نے يہ بھی کہا ہے کہ طالبان کے تمام منقسم دھڑوں کو متحد کرنا کافی مشکل کام ہے۔