1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور پاکستانی قبیلے کے درمیان مذاکرات

29 اکتوبر 2010

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے میں واقع قبائلیوں نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان ان سے افغانستان میں دشوار گزار علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/PrR8
تصویر: AP

جن دشوار گزار افغان سرحدی علاقوں تک پہنچنے کی انتہاپسند طالبان خواہش رکھتے ہیں، وہ تمام علاقے حقیقت میں گوریلا جنگ کی حکمت عملی کے اعتبار سے انتہائی اہم خیال کئے جاتے ہیں۔ ان تک پہنچنے کے راستے پاکستانی علاقے جنوبی وزیرستان سے جاتے ہیں۔ یہ بات چیت توری قبیلے کے رہنماؤں کے ساتھ افغانستان میں متحرک حقانی گروپ کے ارکین جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حقانی گروپ کے ساتھ کرم ایجنسی کے توری قبیلے کے تعلقات کوئی بہت شاندار نہیں ہیں۔ افغان جنگ کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق اس بات چیت میں تھوڑی سی بھی کامیابی واشنگٹن حکومت کے لئے باعث تشویش ہو سکتی ہے۔ امریکہ پہلے ہی پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ٹھکانے رکھنے والے حقانی گروپ کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی اشد ضروری ہے۔ حالیہ دنوں میں اسی گروپ کے اراکین کو مبینہ ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بات چیت کے عمل میں مصروف ایک قبائلی رکن پارلیمنٹ سجاد حسین کا کہنا ہے کہ ان کا قبیلہ جنگی صورت حال سے تنگ آ چکا ہے اور ان کے سینکڑوں افراد مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ سجاد حسین کے مطابق ان کے لوگ امن کے متمنی ہیں۔ بات چیت کے دوران اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان توری قبائلی علاقے کی سڑکوں اور پہاڑی دروں تک رسائی طلب کر سکتے ہیں۔ سجاد حسین کے مطابق ابھی تک بات چیت میں ایسے کسی مطالبے کا ذکر نہیں آیا اور اگر ایسا مطالبہ سامنے آیا تو قبائلی بزرگ اس کو شاید تسلیم نہ کریں۔

Pakistan Landschaft in Waziristan Luftaufnahme
’طالبان دشوار گزار راستوں تک رسائی چاہتے ہیں‘تصویر: Abdul Sabooh

جغرافیائی اعتبار سے کرم ایجنسی کا علاقہ سٹریٹیجک نقطہٴ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا یہ علاقہ افغان صوبوں پکتیا، ننگر ہار اور کھوست کے سامنے واقع ہے۔ اسے شمالی وزیرستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کا مرکزی ٹھکانہ ہے۔ ماہرین کے مطابق کرم ایجنسی سے راستہ یقینی طور پر طلب کیا جائے گا اور اس کے ذریعے حقانی گروپ کے شدت پسند سرحدی علاقے کی اہم بلند چوٹیوں پر براجمان ہونے کے خواہشمند ہیں۔ توری قبیلے نے اپنے راستے طالبان کے لئے بند کر رکھے ہیں اور جواباً انہیں بھی سخت ناکے کا سامنا ہے۔

توری قبیلے اور طالبان کے درمیان ابھی معاہدہ طے نہیں پایا۔ اس میں توری قبیلے کی جانب سے ناکہ بندی کا خاتمہ اور اغوا شدہ قبائلیوں کی رہائی اہم مطالبہ خیال کیا جا رہا ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے اہم فوجی مرکز کوہاٹ کے قریب ہے۔ توری قبیلہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے اور انتہا پسند مسلم عقائد والے طالبان انہیں بارہا نشانہ بنا چکے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں