1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ میں پرتشدد کارروائیاں

24 جون 2009

اقوام متحدہ کے مطابق صومالیہ میں گذشتہ چھ ہفتوں سے جاری خون خرابے اور پرتشّدد واقعات کے نتیجے میں ایک لاکھ 59 ہزار شہری اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/IaTl
صومالیہ میں ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین UNHCR کے ہائی کمشنر António Guterres نے اپنے ایک تازہ بیان میں صومالیہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ صومالیہ میں سرگرم دو عسکری تنظیموں، الشباب اور حزب الاسلام کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خوف سے صرف گذشتہ چار روز کے دوران دارالحکومت موغادیشو کے 26 ہزار شہری دوسرے علاقوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

بحران زدہ افریقی ملک صومالیہ کے اندرونی حالات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔ ایک طرف گذشتہ بیس سال سے اس ملک میں مسلسل خانہ جنگی جاری ہے، تو دوسری جانب الشباب نامی عسکری تنظیم نے ملک کے کونے کونے میں فوج کے خلاف متواتر حملے شروع کر رکھے ہیں۔

صومالیہ کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے نیروبی میں مقیم بین الاقوامی کرائسس گروپ کے عبدی راشد کہتے ہیں: ’’صومالیہ میں گذشتہ دو دہائیوں میں کئی دفعہ فوجی مداخلت دیکھنے میں آئی ہے، مگر وہاں کے حالات کو بہتر نہیں بنایا جا سکا۔ اس صورتحال میں کسی بھی پڑوسی ملک، چاہے وہ ایتھوپیا ہو یا کینیا، کی مداخلت سے بھی مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ اس لئے بین الاقوامی برادری کو صومالیہ میں سیاسی عمل شروع کرنے اور اسے بہتر طور سے چلانے کا انتظام کرنا ہوگا۔‘‘

الشباب کے عسکریت پسندوں نے القاعدہ کی طرز پر خودکش حملے کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے وزیر اعظم عمر عبدی راشد شرمارکے اور ان کی افواج نمٹنے میں ناکام رہی ہیں۔ صومالیہ کے وزیر برائے قومی سلامتی پچھلے ہفتے ہی الشباب کے ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد حکومتی عہدے دار موغادیشو میں ایک طرح سے محصور بیٹھے ہوئے ہیں۔

کرائسس گروپ کے تجزیہ کار عبدی راشد مزید کہتے ہیں: ’’اس دعوے میں بہت حد تک سچائی ہے کہ الشباب کو اب غیر ملکی جہادی دہشت گردوں کی مدد حاصل ہے، جو کہ مسلم دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر یہاں جمع ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ اس سے پہلے یہی عمل عراق میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ‘‘

بین الاقوامی برادری کے سامنے اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ صومالیہ میں سیاسی عمل کس طرح شروع کیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ : انعام حسن

ادارت : امجد علی