1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صوفی محمد مینگورہ پہنچ گئے

17 فروری 2009

پاکستان کی کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولانا صوفی محمد صوبائی حکومت کی جانب سے مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل کے نفاذکے اعلان کے بعد تیمرگرہ سے اپنا احتجاجی کیمپ ختم کرکے مینگورہ پہنچ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Gw3u
سوات میں کئی ماہ سے جاری حکومتی فورسز کے آپریشن میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیںتصویر: AP

ان کے ہمراہ تحریک کے 2000 کارکن بھی ہیں جہاں وہ صوبائی حکومت کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق امن کے قیام تک پڑاؤ ڈالیں گے۔ مینگورہ پہنچنے پر سوات کے ہزاروں لوگوں نے ان کااستقبال کیا جہاں مختصر خطاب کے بعد انہوں نے سیکورٹی کے اعلیٰ حکام سے مذاکرات کئے۔ صوفی محمد دوسرے مرحلے میں سوات طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ جو ان کے داما د بھی ہیں سے مذاکرات کے لئے تحصیل مٹہ جائیں گے۔

مولاناصوفی محمد کے آمد پر مینگورہ میں ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا سوات میں جشن کا سماں رہا ڈیڑھ سال بعد سوات میں بازار ، تعلیمی ادارے اور بینک کھولے گئے ہیں۔ قیام امن پر سب سے زیادہ خوشی طباء وطالبات اوران کے اساتذہ کو ہوئی نجی سکولوں کے طالبات اور اساتذہ کاکہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے ان کا مستقبل تاریک ہورہا تھا۔ مینگورہ کے ایک نجی سکول کی معلمہ سمیر ا شاہین کہتی ہیں کہ ’’ وہ حکومت سرحد اور طالبان سے اپیل کرتی ہے کہ سوات کے بچوں اور بالخصوص طالبات سے علم کے حصول کاحق نہ چھینا جائے ہم کوشش کریں گے کہ طلباء وطالبات کا جو وقت ضائع ہوا ہے تیز ترین کام کرتے ہوئے اس کی تلافی کرسکیں تاہم اس کے لیے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ تعلیمی ادارے بند نہ کرے اور خواتین کی تعلیم پر پابندی نہ لگائیں جتنے بھی تعلیمی ادارے تباہ کیے گئے ان کی بحالی کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائے۔‘‘

صوبائی حکومت کی جانب سے مالاکنڈ میں نظام عدل ریگولیشن کے بعد بازاروں میں چہل پہل دیکھنے میں آئی ایک عرصہ سے گھروں میں محصور لوگ باہر نکل آئے لیکن سوات کے عوام کے امیدوں کے ساتھ کچھ خدشات بھی ہیں جس میں سرفہرست سوات کے طالبان کااسلحہ پھینکنا اور ایف ایم ریڈیو کی بندش ہے۔ طالبان بھی مذاکرات کے لئے جانے والے صوفی محمد سے ضمانت مانگیں گے کہ انہیں عام معافی دی جائے۔ ان کے گرفتار ساتھیوں کورہا کیاجائے اوران کے مرنے والے ساتھیوں کومعاوضہ دیاجائے۔ یہ طالبان کے وہ مطالبات ہیں جو گزشتہ سال صوبائی حکومت کے ساتھ معاہدے میں طے پائے تھے۔ سوات میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی 23 خودکش دھماکوں میں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ 200 سے زیادہ سکول تباہ کیے جا چکے ہیں اورتشدد کے بے پناہ واقعات تاریخ کاحصہ بن گئے ہیں۔ عام لوگ بھی یہی سوال اٹھائیں گے کہ کیا ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کوعام معافی دی جائے گی۔ دفاعی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص علاقہ میں دباؤ میں آکر قانون سازی کرنے سے مستقبل میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ قانونی ماہر اور پشاورہائیکورٹ کے وکیل شیر محمد خان کاکہنا ہے کہ ’’ حکومت کابنیادی مقصد ملک کے تمام عوام کو ایک ہی طرح معاشی، عدالتی، روزگار اوردیگر شعبوں میں برابر حقوق دئیے جائیں مختلف علاقوں کیلئے الگ الگ قوانین بنانے سے ملک انتشار کاشکار ہو سکتا ہے ایسے میں ریاست کے وجود کو بھی خطر ہ لاحق ہوسکتا ہے وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت پورے ملک کے عوام کے لئے سستے اورفوری انصاف کی فراہمی کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں جس سے تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔