1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صوبہ سرحد سلامتی صورت حال

فرید اللہ خان، پشاور23 جنوری 2009

ضلع سوات میں سیکورٹی فورسز پردومختلف حملوں کے دوران دو اہلکاروں اورایک خاتون سمیت تین شہری ہلاک ہوگئے۔

https://p.dw.com/p/Gf48
پاکستانی کے شمال مغربی سرحدی صوبے کی سلامتی صورت حال انتہائی دگرگوں ہےتصویر: AP

دوسری جانب خیبرایجنسی کے علاقہ درہ آدم خیل میں عسکریت پسندوں نے سیکورٹی فورسز چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے جس میں سیکورٹی کا ایک اہلکار ہلاک جبکہ پانچ شدیدزخمی ہوئے۔

سوات میں پہلے واقعے میں خود کش حملہ آورنے بارود سے بھری گاڑی ایک نجی سکول کی عمارت سے ٹکرا دی اس سکول میں سیکورٹی فورسز کے اہلکار موجو د تھے دھماکے کے نتیجے میں سیکورٹی کے دواہلکار موقع پر ہلاک ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد سیکورٹی فورسز نے اندھا دھند فائرنگ کھول دی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت تین شہری ہلاک جبکہ چارشدید زخمی ہوگئے۔ تاہم سیکورٹی فورسز نے شہریوں کی ہلاکت سے لاعملی کا اظہار کیا ہے۔ سوات میں یہ حملے ایسے وقت میں کئے گئے جب مینگورہ کے فوجی مرکز میں سوات کے منتخب ارکان اسمبلی اور وزراء ایک مدت کے بعد اپنے علاقے میں گئے تھے۔ یہ ممبران سوات میں تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر نو کے لئے لاحہءعمل تیار کررہے تھے اس خودکش حملے سے قبل تختہ بند نامی علاقہ میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پرریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا۔ حملے میں گاڑی تباہ ہوگئی تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ ادھرخیبرایجنسی کے علاقہ درہ آدم خیل طورچھپرنامی علاقہ میں سیکورٹی فورسز اورشدت پسندوں کے مابین جھڑپ میں پانچ شدت پسندوں سمیت ایک سیکورٹی اہلکار ہلاک جبکہ پانچ شدید زخمی ہوئے ہیں۔

چند روزقبل طالبان نے ایک ویڈیو ٹیپ جاری کی ہیں جس میں لاہور، بھکراورڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش حملوں میں استعمال کئے جانے والے کم عمر لڑکوں کو دکھایا گیا تھا۔ ان لڑکوں کی عمریں بارہ سے آٹھارہ سال کے درمیان تھی حکومتی اہلکاروں نے اس ٹیپ پر اپنا ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کرکے حکومت وقت کی تائید کی ہے اوراس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ خود کش حملوں کے لئے کم عمر بچے استعمال کئے جاتے ہیں۔

طالبان کا یہ اقدام نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یہ ان کے خلاف اعتراف جرم کے برابر ہے۔ سرحد کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ’’ طالبان نے یہ ویڈیو ٹیپ کرکے اعتراف جرم کردیا ہے۔ انہوں نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے اوراس موقف کی تصدیق کی ہے کہ ہم نے آج تک جو کیا اورجو پالیسی بنائی وہ سچ پرمبنی ہے یہ ٹیپ ان حقائق کا ثبوت ہے جو انہوں نے خود مہیا کردیا ہے اس ٹیپ کے منظر عام پرآنے کے بعد طالبان کی حمایت کرنے والی مذہبی جماعتیں بھی ان کی اس اقدام پرمخالفت کررہے ہیں‘‘۔

جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے مذہبی سکالر اوررکن سرحد اسمبلی مفتی کفایت اللہ کہتے ہیں ’’ چھوٹی عمر کے نوجوانوں کو اندھیرے میں رکھ کرزندگی سے کھیلا جائے تو یہ عمل بالکل ممنوع ہے۔ اس کی کسی بھی طورپر اجازت نہیں دی جاسکتی اگر اس طریقے سے کسی کو یرغمال بنایا جائے۔ اس سے اس طرح کا کوئی کام لیا جائے تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور یہ قابل مذمت ہے ‘‘۔