صوبائی وزیر کےگھر کے سامنے بم حملہ، آٹھ افراد ہلاک
26 جولائی 2010پشاورپولیس کے سربراہ لیاقت علی خان کا کہناہے کہ اس حملے میں دس کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں مزید دو خودکش حملہ آوروں کی موجودگی کی اطلاع ہے۔
خودکش حملہ آور نے صوبائی وزیر کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر پولیس نے اسے پکڑ لیا۔ اس پر حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پشاور پولیس کے سربراہ کے بقول: علاقے میں دو اور خودکش حملہ آوروں کی موجودگی کی بھی اطلاع ہے۔ ان کی گرفتاری کے لئے تلاش جاری ہے۔“
دو روز قبل صوبائی وزیر اطلاعات کے صاحبزادے میاں راشد حسین کو مسلح افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا جبکہ اس واقعے میں ان کے ایک چچازاد بھائی بھی شدید زخمی ہو گئے تھے۔
میاں افتخارحسین کے بیٹے کی رسم قل آج گورنمنٹ ڈگری کالج پبی میں ادا کی جارہی تھی، جہاں کئی وفاقی اور صوبائی وزراء اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد فاتحہ خوانی کے لئے آ رہے تھے جبکہ گھر میں بھی مہمانوں کی آمد کاسلسلہ جاری تھا۔ اس دوران ایک خودکش حملہ آور نے صوبائی وزیر کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی اور پولیس کی طرف سے مداخلت پر خودکو دھماکے سے اڑایا دیا۔
اس بم دھماکے کے نتیجے میں تین پولیس اہلکاروں اور ایک بچی سمیت کم ازکم آٹھ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر پبی اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ پولیس کا کہناہے کہ میاں افتخار حسین کو کئی دنوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔
میاں افتخارحسین خیبر پختونخوا میں ہونے والے ہر بم دھماکے کے فورا ًبعد حملے کی جگہ اور ہسپتال پہنچ جاتے تھے اور صوبائی سیاستدانوں میں سے ان کا موقف ہمیشہ ہی بہت واضح اور دوٹوک رہا ہے۔
میاں افتخار حسین کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے اور یہ لڑائی آخری دہشت گردکے خاتمے تک لڑی جائے۔ میاں افتخار حسین کے اکلوتے صاحبزادے کو ہفتہ کی شام اس وقت گولی مار دی گئی تھی، جب وہ اپنے کزن کے ساتھ سیر کے لئے گئے ہوئے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں کوخصوصی طورپر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب تک ارکان پارلیمان اورضلعی صدور سمیت اے این پی کے 329 کارکن دہشت گردی کانشانہ بن چکے ہیں جبکہ مرکزی صدر اسفندیار ولی خان، صوبائی صدر افراسیاب خٹک اورسینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور متعدد خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں کئی بار بال بال بچے ہیں۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: عصمت جبیں