1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’صنفی امتیاز پر سینڈوچ بیچنے والے تنقید کا مزہ چکھیں‘

عاطف توقیر12 نومبر 2015

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں صنفی امتیاز کو موضوع بنا کر سینڈوچ بیچنے والی دکان کو سوشل میڈیا پر تو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا ہی رہا تھا مگر اب شہری حکام نے بھی اس دکان کا دورہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H4ix
Demonstration für Frauenrechte in Pakistan
تصویر: AP

’اگر وہ سینڈوچ بنا کر نہیں دیتی، تو ہم بنا دیں گے‘ کے نعرے کے ساتھ یہ کیفے دارالحکومت اسلام آباد میں کچھ عرصہ قبل ہی شروع کیا گیا تھا، جس میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور ناشائستگی روا رکھنے والی شخصیات کے ناموں پر سینڈوچز کے کے نام رکھے گئے تھے۔ اس دکان کاکہنا تھا کہ صنفی بنیادوں پر مذاق کو پسند کرنے والے افراد کو یہ کیفے نہایت پسند آئے گا۔ تاہم توقع کے برخلاف اس کیفے کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹیبل نمبر 5 نامی ریسٹوراں دوسروں کو تو خیر کیا سینڈوچ کھلاتا، اسے خود جلے بھنے جملے سہنا پڑ گئے۔ قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے، عوامی دباؤ کے بعد شہری انتظامیہ کے حکام کی جانب سے اس کیفے کے دورے پر سکھ کا سانس لیا ہے۔

اس کیفے پر سخت تنقید کا آغاز اس وقت ہوا، جو گزشتہ ماہ کھلنے والے اس کیفے نے اپنے فیس بک صفحے پر ایک ایسی تصاویر لگائی، جس میں صنف کی بنیاد پر خواتین کو مذاق کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس کیفے کے مینیوز میں سے ایک امریکی گلوکار کرِس براؤن کے نام کا تھا۔ اس امریکی گلوکار پر ایک عدالت میں اپنے سابقہ گرل فرینڈ ریحانہ کو زدوکوب کرنے کے جرم ثابت ہوا تھا۔ خواتین سے جنسی زیادتی کے مجرم مائیک ٹائسن کے نام کا ایک مینیو بھی اس کیفے کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی خواتین کے جنسی استحصال اور پر تشدد جرائم میں ملوث فلمی ستاروں اور گلوکاروں کے ناموں کے سینڈوچز اس کیفے میں رکھے گئے ہیں، جن میں بِل کوسبی بھی شامل ہیں، جن پر درجنوں خواتین نے جنسی حملے کرنے کے الزامات عائد کر رکھے ہیں۔

اس کیفے کی جانب سے اپنے فیس بک پیج پر جاری کردہ ایک تصویر میں ایسا ہی صنفی امتیازی مزاح کرنے کی کوشش کی گئی تھی، ’مردوں کا حق‘ ہے کہ انہیں سینڈوچ کوئی خاتون پیش کرے۔ تاہم اس ’لطیفے‘ نے بہت سے لوگوں کے منہ کا ذائقہ خراب کر دیا۔

اس کیفے کے فیس بک صفحے پر ایک طرف تو خواتین کے حقوق اور ایسے مزاح کے خلاف آوازیں سامنے آئیں اور دوسری طرف روایتی پاکستانی معاشرے کے حامی مرد بھی ایسے لطیفوں پر ہنستے اور اس صنفی امتیاز کے خلاف بات کرنے والوں پر جملے کستے دکھائی دیے۔