صائمہ شاہد کی موت قتل تھا، پاکستانی پولیس
4 اگست 2016برطانوی شہر بریڈفورڈ کی رہائشی 28 سالہ صائمہ شاہد کی ہلاکت کے بارے میں فورنزک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی۔ اس کیس کی تفتیش کی سربراہی کرنے والے پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ابوبکر خدا بخش نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا قتل تھا۔‘‘ ابوبکر خدابخش کا مزید کہنا تھا کہ پولیس صائمہ شاہد کے خاندان کے افراد سے تفتیش کر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریب ایک ہزار خواتین اپنے ہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ ہو جاتی ہیں۔
صائمہ شاہد گزشتہ ماہ یعنی جولائی کے آخر میں اس وقت ہلاک ہو گئی تھیں جب وہ پاکستان میں اپنے خاندان سے ملنے کے لیے وہاں گئی تھیں۔ ان کے شوہر مختار کاظم نے ان کی ہلاکت کا الزام ان کے خاندان پر لگایا کیونکہ صائمہ شاہد نے مختار کاظم سے شادی کرنے کے لیے اپنے سابق شوہر سے طلاق لے لی تھی جو ان کا کزن تھا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مختار کاظم کے الزامات کے بعد صائمہ شاہد کی ہلاکت کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ نثار علی خان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی دوبارہ تفتیش کے دوران ہلاک ہونے والی خاتون کے رشتہ داروں کے بیانات میں تضادات سامنے آئے۔
فورنزک جانچ کی رپورٹ کے مطابق خاتون کی گلے پر بائیں جانب ایک لمبا نشان تھا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ابوبکر خدابخش کے مطابق یہ نشان تشدد یا پھر ممکنہ طور پر موت سے بچنے کے لیے خاتون کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔
صائمہ شاہد کے دوسرے شوہر مختار کاظم نے مقامی میڈیا کو بتایا تھا کہ صائمہ شاہد کو بتایا گیا تھا کہ ان کے والد علیل ہیں جس کی اطلاع پا کر وہ پاکستانی صوبہ پنجاب میں واقع اپنے خاندانی گھر پہنچی تھیں جہاں انہیں قتل کر دیا گیا۔
خاندان کی جانب سے قتل کیے جانے کا یہ معاملہ پاکستان کی سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کے قتل کے محض دو ہفتے بعد ہی سامنے آیا تھا۔ قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے گلہ دبا کر ہلاک کر دیا تھا۔ وسیم نامی ان کے بھائی کو سوشل میڈیا پر بلوچ کی جانب سے اپنی باکانہ تصاویر اور ویڈیوز جاری کیے جانے پر اعتراض تھا۔