شہزادہ نائف سعودی سلطنت کے ولی عہد نامزد
28 اکتوبر 2011اب تک وزیر داخلہ کے فرائض نبھانے والے شہزادہ نائف کو ولی عہد نامزد کرنے کا اعلان شاہی عدالت کی جانب سے ایک فرمان میں کیا گیا ہے۔ اسے ولی عہد کی نامزدگی کے معاملے میں نظم کی نشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بیان کے مطابق شاہ عبد اللہ نے شہزادہ نائف کو ولی عہد نامزد کرنے سے متعلق اپنی خواہش هيئة البيعة نامی شاہی ادارے کے سامنے رکھی، جس نے اس کی حتمی منظوری دی۔ یہ ادارہ شاہ عبد اللہ ہی نے 2006ء میں قائم کیا تھا۔
شہزادہ نائف سابق ولی عہد شہزادہ سلطان کی جگہ لیں گے، جو ایک ہفتے قبل سرطان کے باعث انتقال کرگئے تھے۔ شہزادہ سلطان پانچ دہائیوں تک ملک کے وزیر ہوا بازی اور دفاع رہے۔
سعودی عرب پر قریب ایک صدی سے سعود خاندان کی بادشاہی ہے۔ شاہ عبد العزیز ابن سعود نے 1902ء میں اپنے مخالف قبیلے کو شکست دے کر ریاض پر کنٹرول حاصل کرکے جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اب سعودی عرب بحیرہ احمر سے خلیج عرب تک پھیلی ہوئی دنیا بھر میں تیل کی سب سے بڑی برآمد کنندہ ریاست ہے۔
شہزادہ نائف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ شاید شاہ عبد اللہ کی ’محتاط اصلاحات‘ کی راہ میں حائل ہوں۔ شاہ عبد اللہ کو بہت سے سعودی شہری اس لیے پسند کرتے ہیں کہ انہوں نے ماضی کے مقابلے میں انہیں زیادہ آزادی اور بیرونی دنیا سے رابطے کے زیادہ مواقع فراہم کیے۔ سعودی عرب کی قریب تین کروڑ کی آبادی میں سے 60 فیصد کی عمر تیس سال سے کم ہے اور ملک بھر میں 44 فیصد شہریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ مشرق وسطیٰ کے ماہر تھومس لپمن کے بقول شہزادہ نائف کی بطور ولی عہد نامزدگی کے معاملے کا زیادہ تعلق سعودی عرب کے خارجہ امور سے نہیں بلکہ اندرونی معاملات سے ہے۔ ان کے بقول شہریوں کو شاہ عبد اللہ کی بدولت حاصل آزادی کے اب کھوجانے کا ڈر لاحق ہوسکتا ہے۔ بعض دیگر کے خیال میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ شاہ عبد اللہ اور سابق ولی عہد شہزادہ سلطان کی عارضی عدم موجودگی میں شہزادہ نائف سربراہ مملکت رہ چکے ہیں اور انہوں نے معاملات میں تبدیلی کی کوشش نہیں کی۔
1930ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے شہزادہ نائف ان سعودی شہزادوں میں سے ہیں، جنہوں نے تیل کی دریافت سے قبل والے پسماندہ سعودی عرب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ 2003ء سے سعودی عرب میں القاعدہ کے خلاف کامیاب کارروائیوں کا سہرا بھی انہی کے سر باندھا جاتا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان