شکايت ملک سے نہيں ملاؤں اور حکومت سے ہے، پاکستانی پناہ گزين
2 دسمبر 2015عديل کا تعلق جماعت احمديہ سے ہے۔ پاکستان ميں 1974ء ميں ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں ملکی آئين ميں ترميم کرتے ہوئے احمديوں کو ’کافر‘ قرار دے ديا گيا تھا۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس وقت پاکستان ميں تقريباً دو سے پانچ ملين کے درميان احمدی بستے ہيں۔ احمدی کميونٹی کا دعویٰ ہے کہ انہيں پاکستان ميں اکثر اوقات تشدد اور امتيازی سلوک کا سامنا رہتا ہے، خواہ تعليم کا معاملہ ہو يا ملازمت کا۔ احمديوں کی عبادت گاہوں اور مراکز پر حملے بھی عام ہيں۔
تيس سالہ عديل احمد باجوہ کا ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ انہوں نے جرمنی ميں سياسی پناہ کا فيصلہ ان مسائل کی بنياد پر ليا، جن کا انہيں اور اس اقليت کے ديگر ہزارہا ارکان کو سامنا رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ميں ان مسائل کا سامنا نہيں کرنا چاہتا، جن کا سامنا ميرے والد نے کيا۔‘‘ عديل کے بقول اس کے والد نے اپنی زندگی کے پچيس برس ايک کمپنی ميں ملازمت کی، جس دوران انہيں بس يہی سننے کو ملتا رہا، ’’وہ ديکھو کافر آ رہا ہے، وہ ديکھو کافر جا رہا ہے۔‘‘ پھر اسی کمپنی ميں عديل نے بھی ملازمت شروع کی اور قريب پانچ برس تک اسے بھی ايسا ہی کچھ سننے کو ملا۔ عديل کے بقول وہ اپنی باقی زندگی اس ذلت آميز سلوک کے ساتھ نہيں گزارنا چاہتا تھا اور اسی ليے اس نے ملک چھوڑنے کا فيصلہ کيا۔
يورپ اور بالخصوص جرمنی تک پہنچنے کے ليے عديل نے ايک مقامی ايجنٹ کی خدمات حاصل کيں۔ کراچی ميں اس نے ايک ايجنٹ سے ملاقات کی، جس نے پندرہ لاکھ روپے کے عوض اسے جرمن شہر فرينکفرٹ تک پہنچانے کی حامی بھری۔ عديل کے بقول اس نے فرينکفرٹ آمد کے بعد ايجنٹ کو پوری رقم ادا کی اور راستے ميں کسی قسم کی کوئی دشواری پيش نہيں آئی۔ وہ يہ نہيں جانتا کہ ويزا اصلی تھا يا نقلی۔
جرمنی آمد کے بعد عديل احمد باجوہ محفوظ محسوس کرتے ہيں۔ ’’ہم اپنی عبادت گاہ جا سکتے ہيں اذان دے سکتے ہيں اور خود کو مسلمان کہہ سکتے ہيں۔‘‘
پاکستانی مہاجر عديل اپنے دس ماہ کے بيٹے اور اہل خانہ کو اکثر ياد کيا کرتے ہيں۔ وہ چاہتے ہيں کہ ايک نہ ايک دن وہ بھی جرمنی آ جائيں کيوں عديل کے بقول پاکستان ميں وہ چھپ کر ايک بے نام و بے مقصد زندگی گزار رہے ہيں، وہاں ان کا کوئی مستقبل نہيں۔ عديل احمد باجودہ سياسی پناہ ملنے کی صورت ميں آئندہ دس برس ميں خود کو کامياب ديکھتے ہيں۔ ’’يہ ايک ترقی يافتہ ملک ہے، جہاں انسان کی قدر ہے۔‘‘
آج عديل کو جرمنی پہنچے ايک ماہ گزر چکا ہے۔ وہ جرمن شہر گيسن ميں پناہ کے ليے دستاويزی کارروائی کا منتظر ہے۔ اس کے رات اور دن اپنے اہل خانہ کو ياد کرتے گزرتے ہیں، ليکن اسے آج بھی پاکستان سے کوئی شکايت نہيں۔ اسے شکايت ہے پاکستانی ملاؤں سے ہے، حکومت سے ہے اور پاکستانی پوليس سے ہے۔