1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شپ بریکنگ کی صعنت کو محفوظ بنانے کے معاہدے پر 66 ممالک کے دستخط

رپورٹ:عروج رضا صیامی، ادارت:مقبول ملک15 مئی 2009

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے،بین الاقوامی تنظیم برائے جہاز رانیIMO کے تحت ہانگ کانگ میں منعقدہ اجلاس میں 66 ممالک نے بین الاقوامی سطح پر بحری جہازوں کو توڑنےکی صنعت کومزید محفوظ بنانے کے لئے نئے معاہد ے پر دستخط کر دئے۔

https://p.dw.com/p/HrPb
تصویر: DW

اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے،بین الاقوامی تنظیم برائے جہاز رانیIMO کے تحت جمعہ کے روز ہانگ کانگ میں ہونے والے ایک اجلاس میں 66 ملکوں نے بین الاقوامی سطح پر بحری جہازوں کو توڑنےکی صنعت کومزید محفوظ بنانے سے متعلق ایک نئے معاہد ے پر دستخط کر دئے۔

اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہےکہ تحفظ ماحول اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارےطویل عرصے سے شپ بریکنگ کے روایتی طریقوں کوماحول اور اس صنعت سے منسلک مزدوروں کے لئے ایک بڑا خطرہ قراردیتے آرہے تھے۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن IMO کے تحت اس صنعت کے لئے اپنی نوعیت کا یہ پہلا بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں یہ اعتراف کیا گیا ہےکہ جہاز توڑنے والے مزدوروں کو نقصان دہ کیمیائی مادوں مثلا ایسبسٹاس ،پارہ اور دیگر زہریلے مادوں کے باعث ہلاکت خیز امراض کا شکار ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

معاہدے میں اس بات پر زور دیا گیا ہےکہ ان تمام کیمیائی مادوں کی تفصیل بھی ایسے ممالک کو مہیا کی جانا چاہیے جہاں جہاز توڑنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

ترقی پزیر ممالک میں روایتی طور پر جہازوں کوساحل کے قریب لاکر پانی میں توڑا جاتا ہےاسی لئے دنیا بھر میں قدرتی ماحول اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی 107 تنظیموں نےIMO سے شپ بریکنگ کے اس طریقے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جہازرانی کی بین الاقوامی تنظیم نے ترقی پزیر ممالک میں جہاز توڑنے کی صنعت پر کوئی بھی پابندی لگائے بغیر اس معاہدے کو ایک کامیابی قرار دیا ہےجس پر 66 ممالک نے دستخط کئے ہیں۔ ان ریاستوں میں آسٹریلیا، برازیل چین اور جنوبی افریقہ بھی شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 1990اور 2006 کے درمیان 10 ہزار سے زائد جہازوں کوrecycle کیا گیا، یعنی ان کے اجزاء کو دوبارہ کارآمد بنایا گیا۔ دوسری طرف شپ بریکنگ کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر Ingvild Jenssen کا کہنا ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں روایتی انداز میں ساحلوں پر جہاز توڑنے والے مزدورں کی تقریبا 80 فیصد تعداد بغیر حفاظتی اقدامات کے یہ کام کرتی ہے۔

Inauguration of the European Maritime Safety Agency (EMSA)
جہازرانی کے شعبے میں سلامتی کے یورپی ادارے کا لوگوتصویر: European Community

جینسن کا کہنا ہے کہ نئے معاہدے کے تحت بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پزیر ممالک میں غیر محفوظ طریقوں سے جہاز توڑنے کی صنعت کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور یہ بات ان کمپنیوں کے لئے سزا سے کم نہیں ہے جو اس مقصد کے لئے انتہائی محفوظ اور ماحول دوست طریقے اختیار کرتی ہیں۔

ترقی پزیر ممالک میں جہازوں کوچونکہ ساحلوں کے قریب توڑا جاتا ہے لہٰذا نرم ریت کے باعث وزن اٹھانے والی بھاری مشینوں کا وہاں تک پہنچنا ناممکن ہوتا یے۔ اس لئے یہ کام زیادہ تر ایسے مزدور انجام دیتے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں حادثات کے سبب کارکنوں کی جان جانے یا معذور ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

Jenssen نے مزید کہا کہ پرانے جہازوں کے مالکان شپ بریکنگ کے لئے ترقی پزیر ممالک جیسے کہ بنگلہ دیش کو فوقیت دیتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں سکریپ قرار دئے جانےوالے ان جہازوں کی یورپی ممالک کی نسبت 10 گنا زیادہ تک قیمت مل جاتی ہے۔ اس کا سبب یورپی ممالک میں نافذ وہ سخت قوانین ہیں جن کے تحت جہاز توڑنے والے اداروں کو مزدوروں اور ماحول کے تحفظ کے لئے زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

IMO کے ترجمان Lee Adamson نے کہا ہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک کو اربوں ڈالر کی اس اہم صنعت کے بارے میں حقیقت پسندی سے سوچنا چاہئے ۔کسی بھی خود مختار ملک کو کسی بین الاقوامی معاہدے کا حصہ بننے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ رکن ممالک کوانفرادی طور پر اس معاہدے کی توثیق کرناہو گی۔

تحفظ ماحول کی" پلیٹ فارم "کہلانے والی ایک تنظیم کی رکن Helen Pervier کا کہنا ہے کہ ساحلوں پر جہاز توڑنے کی اس صنعت کی باعث ساحلی علاقوں کے قریب رہنے والے انسانوں کی صحت اور ان کے ارد گرد کےماحول پرانتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔