شمالی کوریا کے خلاف فوجی ایکشن کا امکان موجود ہے، ٹِلرسن
17 مارچ 2017امریکا کے وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے سیئول میں اپنے جنوبی کوریائی ہم منصب یُن بائی یُنگ سی کے ساتھ ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے اس ملاقات میں شمالی کوریا کی جوہری ہتھیار سازی اور بیلسٹک میزائل کے تجربات پر خاص طور پر گفتگو کی۔ امریکی وزیر خارجہ جنوبی کوریا کے بعد کل ہفتہ اٹھارہ مارچ کوچین کے دارالحکومت بیجنگ جائیں گے۔
ٹِلرسن نے جنوبی کوریائی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کے دوران واضح طور پر کہا کہ گزشتہ بیس برسوں سے عالمی برادری کی شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار سازی کا سلسلہ ختم کرنے کی کوششوں سے کوئی حوصلہ افزاء نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے شمالی کوریا کے خلاف ممکنہ فوجی ایکشن کو ایک امکان بھی قرار دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے سیئول پہنچنے کے بعد شمالی و جنوبی کوریا کے سرحدی مقام کا دورہ بھی کیا۔ انہیں تازہ ترین سرحدی صورتحال پر بریفینگ بھی دی گئی۔
جنوبی کوریائی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سفارت کاری کے ذریعے اسٹریٹیجک حکمت عملی مرتب کرنے کا معاملہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اب ضرورت ایک نئی طرز کے سفارتی عمل، سکیورٹی اپروچ اور اقتصادی اقدامات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکا کسی بھی طور پر عسکری تنازعے کو کھڑا کرنا نہیں چاہتا۔ ٹِلرسن کے مطابق امریکا نے شمالی کوریائی حکومت کو جوہری ہتھیار سازی ترک کر کے کوئی دوسرا اور متبادل راستہ اپنانے کے لیے 1.35 بلین ڈالر کی مدد بھی فراہم کی تھی۔
ریکس ٹِلرسن کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزائر کی تعمیر اور پھر اُن پر فوجی ساز و سامان کی تنصیب روس کے سن 2014 میں کریمیا کو ضم کرنے کے مساوی ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ان جزائر تک چین کی رسائی کو محدود کرنا ضروری ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہفتہ اٹھارہ مارچ کو جب ٹِلرسن چینی دارالحکومت پہنچیں گے تو چینی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں یہ موضوع سرِفہرست ہو سکتا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین کے ملکیتی تنازعے میں چین کو فلپائن، برونائی، ویتنام، تائیوان اور ملائیشیا کی دعووں کا سامنا ہے۔