1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا نے عدمِ جارحیت معاہدے پردستخط کردیے

24 جولائی 2008

شِمالی کوریا نے آسیان کے سیکیورٹی اجلاس کے اختتامی روزعدم جارحیت سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ اسی اجلاس میں امریکی وزیرِ خارجہ نے جمہوریت سے متعلق مینمار کے دعووں کو جمہوریت کی تذلیل قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/EizX
تصویر: AP

گو کہ عدم جارحیت سے متعلق معاہدے پر شِمالی کوریا کے دستخط کرنے سے اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ہونے والے چھ فریقی مزاکرات پرکوئی اثر نہیں پڑے گاتاہم یہ علامتی دستخط عرصہ ِ دراز تک بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ رہنے والی کمیونسٹ ریاست کی جانب سے ایک اعلان ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو چکی ہے۔


دریں اثناء آسیان کے سیکیورٹی اجلاس میں امریکی وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس اور شِمالی کوریا کے وزیرِ خارجہ کے درمیان ایک ملاقات کے بعد آسیان نے ایک بیان جاری کیا جس میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے جوہری توانائی سے کہا گیا ہے کہ وہ شِمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے حوالے سے وسیع تر کردار ادا کرے۔ اگر شمِالی کوریا کی فوجی حکومت اس مطالبے کو مان لیتی ہے تو یہ اس کے جوہری پروگرام کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔


امریکی وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے مزکورہ آسیان اجلاس میں مینمار کو زبردست ہدفِ تنقید بنایا اور اس کی جانب سے جمہوریت کی پاسداری کے بیانات کو مضحکہ خیز پرار دیا۔ مینمار ہی سے متعلق ایک دوسرے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قدرتی آفت سے متاثر ممالک بیرونی امداد قبول کرنے میں تامل نہ کریں۔ یاد رہے کہ مئی کے مہینے میں مینمار میں آنے والے سمندری طوفان کے نتیجے میں زبردست تباہی پھیلی تھی مگر اس کے باوجود مینمار کی فوجی خنتا نے بیرونی امداد کے لیے دروازے بند رکھے۔


دریں اثناء تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کا سرحدی تنازعہ بھی آسیان سیکیورٹی اجلاس میں پیش پیش رہا۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی سرحد پر واقع بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک قدیم عبادت گاہ کے گرد کم از کم چار ہزار تھائی اور کمبوڈیائی افواج جمع ہوچکی ہیں۔ اس علاقے پر دونوں فریق اپنا حق بتاتے ہیں۔ آسیان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو فی الوقت اقوامِ متحدہ میں نہیں بھیجا جانا چاہیے کیوں کہ پہلے اس مسئلے کو علاقائی سطح پر حل کیے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔