1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی افریقی ملک تیونس میں عام انتخابات

رپورٹ :عابد حسین ، ادارت: شادی خان سیف25 اکتوبر 2009

تیونس نے عرب دنیا میں ایک خاص مقام حاصل کر رکھا ہے۔ ایک دور میں عرب لیگ کا صدر دفتر بھی اِس ملک منتقل کردیا گیا تھا۔ زین العابدین بن علی تیونس کے پہلے صدر حبیب بو رقیبہ کے کچھ عرصہ تک وزیر اعظم بھی رہے۔

https://p.dw.com/p/KEiz
انتخابی مہم کے دوران دارالحکومت کی ایک بڑی سڑک پر صدر زین العابدین بن علی کا پوسٹرتصویر: AP

شمالی افریقہ کے مسلمان آبادی والے ملک، تیونس میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ ہوئی۔ یقینی امکانات ہیں کہ ملک کے تہتر سالہ صدر زین العابدین بن علی ہی کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ پچھلی دو دہائیوں سے تیونس پر حکمرانی کر تے آرہے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں اُن کو پچانوے فیصد کے قریب ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

گزشتہ روز ملکی ٹیلی ویژن پر تقریر کرتے ہوئے، صدر بن علی نے کہا تھا کہ انتخابی عمل پر بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے شکوک یا الزامات عائد کرنے والوں سے قانون کے تحت سختی سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کو بھی انتباہ کیا کہ وہ تیونس کے ملک کے اندر یاسیت کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش نہ کریں۔

Tunesien Wahl
تیونس کا صدارتی اور پارلیمانی الیکشنتصویر: AP

دوسری جانب بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے تیونس کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے کیونکہ اپوزیشن کو حکومت کی جانب سے ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اِن کے مطابق ایک غیر فعال اپوزیشن کی موجودگی میں زین العابدین بن علی باآسانی ملک گیر کامیابی حاصل کر لیں گے۔

تیونس کی سبے اہم اور مقبول حکومت مخالف شخصیت احمد نجیب الشابی نے الیکشن کو فراڈ قرار دے کر اِن کا بائکاٹ کر رکھا ہے۔ اِسی طرح ایک اور مشہور سیاستدان احمد ابراہیم نے بھی انتخابی مہم کے دوران حکومتی رکاوٹوں پر نکتہ چینی کی ہے۔ دوسری جانب تیونس کے صدر کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومتی کارندوں کی طرف سے ہراساں کرنے کا الزام غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ یہ لوگ ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

Tunesien Unabhängigkeitstag Zine El Abidine Ben Ali
صدر زین العابدین بن علی: فائل فوٹوتصویر: AP

یہ امر بھی اہم ہے کہ تیونس مغرب کا ایک قریبی اتحادی تصور کیا جاتا ہے جہاں اعتدال پسند مسلم حکومت قائم ہے اور وہ ملک کے اندر انتہاپسندی کے خلاف بھرپور کارروائیوں سے بھی نہیں چوکتی۔ تیونس عرب دنیا کا بھی ایک قریبی حلیف ملک قرار دیا جاتا ہے۔ تیونس کا شمار شمالی افریقہ کے خطے میں ایک بہتر اورمناسب اقتصایات کے حامل ملک کے طور پرکیا جاتا ہے جہاں غربت کی شرح کم اور سیاسی عدم استحکام بھی نہیں ہے۔

تیونس میں ہر سال یورپ سے لاکھوں سیاح آتے ہیں جو ملکی اقتصادیات کے لئے انتہائی اہم قرار دیئے جاتے ہیں اور تیونس کے اندر عوام اِس اقتصادی ثمر کا حقدار موجودہ صدر زین العابدین بن علی کو قرار دیتے ہیں۔ بڑے شہروں کی اشرافیہ کھلے عام موجودہ صدر کو ملک کا نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے اُن کی حمایت کر رہی ہے۔

زین العابدین نے تیونس میں اقتدار سن اُنیس سو ستاسی میں سنبھالا تھا جب اُن کے پیش رو حبیب بورقیبہ کو شدید علالت کے باعث ڈاکٹروں کی جانب سے حکمرانی کے لئے ان فٹ قرار دے دیا گیا تھا۔ حبیب بو رقیبہ کو اقتدار سے فارغ کرنے کو تیونس کے سیاسی حلقے ایک بغاوت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔