1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی افریقہ میں شمسی توانائی کا ممکنہ انقلاب

8 جولائی 2010

ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن کا یہ منصوبہ بنیادی طور پر توانائی کے ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ شمالی افریقی صحراؤں اور مشرق وسطیٰ میں توانائی کا یہ انقلاب سن 2050 تک یورپ کو بھی بجلی کی فراہمی کا سبب بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/ODZK
تصویر: AP

شمالی افریقہ کے صحراؤں اور جزیرہ نما عرب کے صحرائی حصے میں شمسی توانائی کو محفوظ کرنے والے بڑے بڑے آئینے نصب کئے جا چکے ہیں۔ یہ آئینے سورج کی روشنی کو اسی انداز میں مرتکز کر رہے ہیں جس طرح محدب عدسے سے روشنی ایک جانب سے دوسری جانب نکلتی ہے۔ روشنی کی یہ تیز شعاع انجام کار حدت کا مخرج بنتے ہوئے صاف توانائی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ابھی یہ ایک نظریہ ہے لیکن ان صحرائی مقامات سےشمسی توانائی شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کو فراہم کی جائے گی اور اگلے چالیس برس بعد وہاں سے پندرہ فیصد بجلی کی فراہمی یورپ کو ممکن بنا دینے کا پلان بھی ہے۔

بظاہر یہ توانائی کے حصول کے سلسلے میں انتہائی اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ڈیزرٹیک نامی ادارے کے اس اہم پروجیکٹ سے سارے خطے میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ لبنان کی ایک غیر سرکاری تنظیم انڈی ایکٹ کے ڈائریکٹر وائل ہمدان کا خیال ہے کہ شمسی توانائی کا یہ منصوبہ عین دسترس میں ہے اور سارے خطے کو مزید محفوظ بنانے کےقابل بھی ہے۔ ان کے خیال میں:

’’اس خطے میں کئی تنازعات ہیں۔ لیکن سورج پر کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ یہ زیر زمین تیل کے کنوئیں کی مانند بھی نہیں ہے، جو انجام کار سوکھ جائے اور جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑوں کا امکان ہو۔ یہ متبادل اور پر امن توانائی کا ذریعہ بھی ہے۔ لوگوں کے احساس تحفظ میں اضافے سے بہتر حکومتی اقدامات کا امکان پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اگر لوگوں کو اپنی بقا کی فکر ختم ہو جائے تو وہ دوسرے سوال اٹھاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس پلان میں بہت وسعت ہے۔‘‘

Flash-Galerie Portugal
شمسی توانائی کا ایک یورپی پلانٹتصویر: AP

وائل ہمدان کا کہنا ہے کہ اصل پروجیک کا حتمی شکل میں مکمل ہونا خاصا اہم ہے۔ امکانی طور پر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شمسی توانائی کےحصول کے لئے آئینوں کی تنصیب کے لئے بہت زیادہ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن کا اس بابت کہنا ہے کہ وہ غیر استعمال جگہ کو شمسی توانائی کے حصول کے لئے استعمال کرے گی۔ دوسری جانب ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن کے مستقبل کے منصوبوں میں شمسی توانائی کے لئے مختلف پلانٹس کا قیام ساحلی علاقوں میں دکھایا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی ساحلی پٹیاں بہت گنجان آباد علاقے ہیں۔ ایک غیر سرکاری امدادی تنظیم بریڈ فار دی ورلڈ (دنیا کے لئے روٹی) کے نمائندے ٹوماس ہِرش کا خیال ہے کہ ڈیزرٹیک کا یہ اختراعی منصوبہ متعلقہ ملکوں میں مقامی آبادیوں کی دربدری کا سبب بن سکتا ہے۔

’’اس منصوبے میں دو طرح کی زمینیں باعث تنازعہ ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک بنیادی ڈھانچوں والے زرعی ساحلی علاقے ہیں اور دوسرے اندرونی مقامات، جہاں صحرائی خانہ بدوش اپنے مال مویشی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے معلوم ہو گا کہ چراگاہوں تک رسائی کس حد تک باقی رہے گی اور پانی کے نایاب ذخائر تک کیسے پہنچا جا سکے گا۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ صاف توانائی کے لئے پانی انتہائی اہم ہے۔ شمسی توانائی کو سٹیم یا بھاپ والے پاور پلانٹس کے ذریعے ٹربائن چلاتے ہوئے بجلی پیدا کی جائے گی۔ ٹوماس ہِرش کا خیال ہے کہ ڈیزرٹیک کی منصوبے سے اس علاقے میں پانی کی صورت حال ابتر بھی ہو سکتی ہے۔

اس مناسبت سے ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن کا ایک منصوبہ کڑوے اور کھاری سمندری پانی کو صاف کرنا بھی ہے۔ اس آبی منصوبے پر عملدرآمد سے فی گھنٹہ چار لاکھ لٹر کھارا پانی صاف کیا جا سکے گا۔سمندری پانی کو صاف کرنا ایک انتہائی مہنگا عمل ہے، جس کے لئے خاصی زیادہ توانائی یا بجلی یا کسی دوسرے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین گیرہارڈ کنیزکا خیال ہے کہ ان کا ادارہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے علاقے میں شمسی توانائی کے اس منصوبے کو فروغ دینے کی خواہش رکھتا ہے، جس میں کئی دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ تعاون بھی بہت اہم ہو گا۔ کنیز کا خیال ہے کہ ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن کے منصوبے سے روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ پورے علاقے میں خوشحالی بھی آئے گی۔ ان کو یقین ہے کہ مقامی باشندوں کے مفادات کو کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے۔ گیر ہارڈ کنیز کا کہنا ہے:

Weltweit verfügbare Sonnenenergie.
سورج کی روشنی کی دستیابی والے علاقے، زرد رنگت میںتصویر: Wikipedia/Mathias Loster

’’اس مقصد کے لئے پورے علاقے میں سے صرف 0.5 فیصد تک علاقہ درکار ہو گا۔ متاثرہ خطوں کا بڑا حصہ استعمال میں نہیں آئے گا، جن سے متعلق فیصلہ سازی قومی حکومتوں کا کام ہے اور اس میں وہ کوئی مداخلت نہیں کر رہے۔ یوں شامل ملکوں کو اس حوالے سے اپنی سطح پر جانچ پڑتال کرنا ہو گی۔‘‘

اس تناظر میں امدادی تنظیم بریڈ فار دی ورلڈ (دنیا کے لئے روٹی) کے نمائندے ٹوماس ہِرش کا کہنا ہے کہ لیبیا اور سعودی عرب میں عوامی آواز کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’مرکزی نکتہ عوامی شرکت کا ہے۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل اگر مقامی سطح پر ہونا ہے تو مقامی آبادیوں کی شمولیت بھی لازمی ہونی چاہئے۔ ان کی رضامندی کا منصوبے کی تکمیل کا حصہ ہونا ضروری ہے۔‘‘

ٹوماس ہِرش کو یقین ہے کہ اس پروجیکٹ میں شامل کمپنیاں بعض اصولوں کی ضرور پاسداری کریں گی۔ ڈیزرٹیک فاؤنڈیشن پرائیویٹ سیکٹر کا ادارہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے مفادات اور حقوق کا خیال رکھے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں