1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی

25 اپریل 2016

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و مہاجرین (بی اے ایم ایف) کے آج بروز پیر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شمالی افریقی ممالک سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ic1t
Flüchtlinge aus Nordafrika
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے الجزائر، تیونس اور مراکش سمیت شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

بی اے ایم ایف کی جانب سے جرمنی کی وفاقی پارلیمان میں پیش کی گئی ایک دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ رواں برس جنوری کے مہینے میں جرمنی میں پناہ کی درخواست دینے والے شمالی افریقی باشندوں کی تعداد 3356 تھی، جو فروری میں کم ہو کر 599، جب کہ مارچ میں مزید کمی کے بعد 480 رہ گئی۔

بی اے ایم ایف کے مطابق اس کمی کی ایک اہم اور بڑی وجہ رواں برس جنوری کے مہینے میں جرمنی کی جانب کی گئی وہ قانونی تبدیلی ہے جس کے تحت تیونس، الجزائر اور مراکش کو محفوظ ملک قرار دے دیا گیا تھا۔ نام نہاد ’محفوظ ممالک‘ سے آنے والے تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہوتے ہیں۔

جرمنی کے شہر کولون میں سال نو کی تقریبات کے موقع پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ جنسی حملوں سے متاثر ہونے والی خواتین اور عینی شاہدین کے بیانات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ منظم طریقے سے جنسی حملے کرنے والے گروہوں میں شامل زیادہ تر افراد کا تعلق شمالی افریقی ممالک سے تھا۔

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

اس واقعے کے بعد جرمن عوام میں شدید غم و غصہ دیکھا گیا تھا۔ عوامی ردِ عمل کے بعد جرمن حکومت نے مذکورہ بالا تینوں شمالی افریقی ممالک کو ’محفوظ ملک‘ قرار دے دیا تھا۔

گزشتہ برس جرمنی میں نئے آنے والے گیارہ لاکھ سے زائد پناہ گزینوں میں شمالی افریقی باشندوں کی تعداد کافی کم تھی۔ وفاقی دفتر برائے مہاجرت و مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں الجزائر، تیونس اور مراکش سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد چھبیس ہزار سے کچھ زائد تھی۔

گزشتہ برس اس خطے سے آنے والے غیر ملکیوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کا تناسب دو فیصد کے قریب رہا تھا جو کہ اس برس مزید کم ہو کر محض 0.7 فیصد رہ گیا ہے۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ترکی سے مہاجرین کی یورپ قانونی آمد بھی شروع

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید