شروع میں رشتہ رد کر دیا تھا، اسامہ کے یمنی سسر کا بیان
16 مئی 2011احمد بن عبدالفتح السعادہ نامی اس یمنی شہری نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ابتداء میں رشتے کی یہ تجویز رد کرنے کے کچھ عرصے کے بعد وہ اپنی بیٹی کی شادی بن لادن کے ساتھ کرنے پر رضا مند ہو گیا تھا۔ عبد الفتح نے بتایا کہ اس کی بیٹی اور بن لادن کی شادی سن1999 میں ہوئی تھی اور تب تک امریکہ پر گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملے نہیں ہوئے تھے۔
عبدالفتح نے بتایا کہ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاک ہو نے والے سربراہ بن لادن کے ساتھ تقریبا بارہ برس پہلے اس کی بیٹی کی شادی کے وقت اس یمنی باشندے کو صرف اتنا علم تھا کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں سوویت یونین کے فوجی دستوں کے خلاف مزاحمت میں شامل رہا تھا۔
احمد عبد الفتح نے صنعاء میں روئٹرز کو بتایا کہ اس کی طرف سے اپنی بیٹی کا ہاتھ بن لادن کے ہاتھ میں دینے کے فیصلے سے پہلے بن لادن کی طرف سے اس رشتے کے لیے کئی مرتبہ درخواست کی گئی تھی۔ امل احمد عبدالفتح کے سترہ بچوں میں سے ایک ہے اور جب اس کے والد نے امل کی شادی بن لادن کے ساتھ کرنے کے لیے اسے افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا تو تب امل کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی اور بن لادن کی عمر چالیس اور پینتالیس سال کے درمیان تھی۔
اسامہ بن لادن کے اس سسر کے بقول اس کی بیٹی صرف بن لادن کی ایک بیوی تھی اور اس کا القاعدہ اور اس کے ارکان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔’’ہم نہ ہی بن لادن کے اقدامات کے حق میں ہیں اور نہ ہی القاعدہ کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘‘ عبدالفتح نے یہ بھی کہا کہ بن لادن نے اس کی بیٹی سے شادی کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی تھی۔
یمن پیدائشی طور پر سعودی عرب کی شہریت رکھنے والے بن لادن کا آبائی وطن تھا جہاں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی ایک مقامی شاخ آج بھی فعال ہے۔ القاعدہ کی اس ذیلی تنظیم نے یہ اعتراف بھی کر رکھا ہے کہ سن 2009 میں امریکہ جانے والے ایک ہوائی جہاز کو دھماکے سے اڑانے کی ناکام کوشش بھی اسی تنظیم نے کی تھی۔ القاعدہ کی یمن میں اس شاخ پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سن 2010 میں امریکہ جانے والی ایک پرواز میں دیگر سامان کے ساتھ خفیہ طور پر چار بم بھیجنے کا کام بھی اسی گروپ نے کیا تھا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک