1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شدید مخالف کے بعد ایتھنز میں پہلی سرکاری مسجد کی منظوری

امتیاز احمد5 اگست 2016

یونانی پارلیمان نے دارالحکومت ایتھنز میں پہلی سرکاری مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور طاقتور آرتھوڈکس چرچ ایک طویل عرصے سے اس مسجد کی تعمیر کی مخالفت کرتے چلے آ رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/1JcIw
Frankreich Moschee in Frejus
تصویر: Getty Images/AFP/B. Horvat

ایتھنز کا شمار ان چند یورپی دارالحکومتوں میں ہوتا ہے، جہاں کوئی سرکاری مسجد موجود نہیں ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کی منظوری میں اب تک متعدد دفتری رکاوٹیں حائل تھیں، جنہیں گزشتہ روز دور کر دیا گیا ہے۔

یونانی پارلیمان میں اس حوالے سے ہونے والی رائے شماری میں کُل تین سو قانون سازوں نے شرکت کی اور ان میں سے دو سو چھ نے مسجد کی تعمیر کے حق میں ووٹ دیے۔ اس مسجد کی تعمیر کی منظوری کے حوالے سے ماضی میں بھی متعدد کوششیں کی گئی تھیں لیکن وہ آرتھوڈکس چرچ کی مخالفت کی وجہ سے ناکام رہی تھیں۔

Deutschland Pegida gegen Moscheen Plakat in Dresden
دائیں بازو کی جماعت ’گولڈن ڈان پارٹی‘ کا کہنا تھا کہ وہ اس مسجد کی تعمیر کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں گےتصویر: Getty Images/AFP/R. Michael

برسر اقتدار بائیں بازو کی سیریزا پارٹی کی حمایت سے منظور ہونے والی اس مسجد کی تعمیر پر نو لاکھ پچاس ہزار یورو لاگت آئے گی۔ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ہزاروں مسلمان مہاجرین آباد ہیں لیکن وہ نجی طور پر مکانوں میں بنائی گئی مساجد میں اپنے مذہبی فرائض ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد نجی مساجد تہہ خانوں اور ویران مقامات پر بنائی گئی ہیں۔

دارالحکومت میں موجود ایک شامی مہاجر احمد حسن کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ مسئلہ گزشتہ دس برسوں میں کئی مرتبہ اٹھایا گیا ہے اور بعد ازاں مسجد کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا جاتا، ’’یہ مسئلہ جہاں ہے، وہاں ہی دوبارہ روک دیا جاتا ہے۔ گزشتہ حکومتیں تو اس کی مخالفت کرتی آئی ہیں لیکن مجھ لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔

یورپ میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے یونان میں بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ حکام کے مطابق یہ مجوزہ مسجد ایتھنز کے مرکز کے مضافات میں واقع ایک صنعتی علاقے میں تعمیر کی جائے گی۔ اسی مقام کے قریب مہاجرین کا ایک کیمپ بھی قائم ہے، جسے اقوام متحدہ کا ادارہ چلا رہا ہے۔

مسجد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے یونان کے وزیر برائے تعلیم اور مذہبی امور نیکوس فیلس کا کہنا تھا کہ یونان کو وہ غلطیاں نہیں دوہرانی چاہیئیں، جو دیگر یورپی ملکوں نے کی ہیں۔ انہوں نے اس اقلیت کو سماجی طور پر الگ رکھا اور اس کے نتائج انتہا پسندی کی صورت میں نکلے ہیں، ’’یورپ نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ اسلام ایک حقیقت ہے۔ عارضی اور خستہ حال مساجد ہمارے ملک کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔‘‘

اس ووٹنگ سے پہلے دائیں بازو کی جماعت ’گولڈن ڈان پارٹی‘ کا کہنا تھا کہ وہ اس مسجد کی تعمیر کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور تعمیراتی کام کو روکنے کے لیے مظاہرے کیے جائیں گے۔ اس پارٹی کے رکن پارلیمان یآنس لاگوس کا کہنا تھا، ’’ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ گولڈن ڈان اسے روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگائے گی۔‘‘ جمعرات کو اس ملک میں ٹوئٹر پر ’’مسجد نہیں‘‘ کا ہیش ٹیگ پہلے نمبر پر تھا۔